آمد کے ایام رْوحانی تیاری کے ایام


آج کل ہم بے شمار بیماریوں کے ناموں سے آگاہ ہیں۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بیماریاں ماڈرن زمانے میں ہی وجود میں آئی ہیں۔ حالانکہ یہ بات اگر کسی حدتک سہی ہے تو بہت حد تک اُدھوری بھی ہے، کیونکہ ہمارے آباؤ اجداد کے زمانے سے ہی یہ بیماریاں موجود تھیں لیکن اِن کے بارے میں کوئی ریسرچ نہیں تھی۔ آج کے سائنسی ریسرچر ز نے ترقی کر کے بیماریوں کو دریافت کیا ہے اور اُنہیں مختلف نام دئیے ہیں۔ دُنیا میں کچھ بیماریاں بہت ہی معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ جو محض ایک گولی کھانے سے ہی ٹھیک ہو جاتی ہیں، جبکہ کئی بیماریاں جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔ کچھ بیماریوں کا علاج تو سائنس نے دریافت کر لیا ہے،جبکہ ابھی تک بہت ساری بیماریوں کا علاج ڈھونڈنا باقی ہے۔
آج کے دور میں اگر ایک بچے سے بھی بیماریوں کے ناموں کی فہرست پوچھی جائے تو وہ بے شمار نام گنوا دے گا، کیونکہ وہ ان سب بیماریوں کے ناموں سے واقف ہو چکا ہے۔ اگر ہم سے یوں ہی بیٹھے بیٹھے کوئی یہ سوال کر ڈالے کہ کیا آپ کو کوئی بیماری ہے تو آپ یقینا نفی میں ہی جواب دیں گے۔جبکہ اگر رُوحانی پوائنٹ آف ویو سے دیکھا جائے توہم سب بیمار ہیں۔لیکن کوئی بھی اُس بیماری کا نام نہیں بتا پائے گا، جس میں اُس کی رُوح بُری طرح مبتلا ہے۔ بلکہ اِس بات سے بھی واقف نہیں ہوں گے کہ یہ بیماری کتنی سنگین نوعیت اختیار کر چکی ہے۔ہم سب بیماری کے نام سے ہی دُور بھاگنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثر اوقات چھوٹی اور معمولی بیماریاں بھی ہمارے لئے بہت تکلیف کا باعث بن جاتی ہیں اور اپنے ہونے کا احساس دلا کر ہی ہمارا پیچھا چھوڑتی ہیں۔لیکن ایک بیماری ایسی بھی ہے جو ہمارا پیچھا تا حیات نہیں چھوڑتی۔ اُسے ہم سے بہت لگاؤ ہے اور آہستہ آہستہ ہم اُس کے اتنے عادی ہو جاتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ بیماری ہماری جان بھی لے سکتی ہے۔

کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ دُنیا کی سب سے بڑی، مہلک اور جان لیوا بیماری کون سی ہے؟ جی ہاں! وہ بیماری ”گناہ“ہی ہے۔اگر آپ خُدا نہ خواستہ محض کسی چھوٹی موٹی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو آپ اُس سے با آسانی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن گُناہ ایک ایسی”لذیذ“بیماری ہے جس سے کوئی بھی رہائی حاصل کرنا نہیں چاہتا۔آپ کی رُوح اَن گنت گُناہ کر کر کے اتنی گُناہ آلود ہو چکی ہے کہ اب آپ اپنی رُوح کی بیماری کی سٹیج سے بھی واقف نہیں رہے۔ہمیں گناہ کرتے میں سکون حاصل ہوتا ہے۔اس لئے تو ہم اِس سے بچے رہنے کے لئے کوئی”سیفٹی پری کوشنز“ نہیں لیتے۔ کبھی بنا سوچے سمجھے، اور کبھی سوچ سمجھ کر گناہ پہ گناہ اور مزید گناہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں۔ شاید ہمیں اِس ”موزی“ بیماری کے مہلک اور جان لیوا ہونے پہ کوئی شک ہے۔
یاد رکھیں! یہ ضروری نہیں کہ ہمیں ہمارے گناہوں کا بدلہ صرف اگلی دُنیا میں ہی دیا جائے گا۔کبھی کبھی ان گناہوں کی سزا ہمیں اسی دُنیا میں بھی مل جاتی ہے۔ہم یہی سوچ کر اس کے جان لیوا ہونے سے غافل رہتے ہیں کہ کوئی بات نہیں، اگلی دُنیا میں دیکھا جائے گا۔ جب جسموں میں جان ویسے بھی باقی نہیں رہے گی۔ابھی تو عیش کر لولیکن یہ انسانی فلسفہ انتہائی غلط ہے۔آپ نے یہ گانا تو سنا ہی ہو گا”جانے کب ہوں گے کم؟ اِس دُنیا کے غم!۔۔۔“کیا آپ جانتے ہیں کہ اِس دُنیا کے غم کب کم ہوں گے؟ اور یہ کہ اِس دُنیا میں اتنے غم آخر ہیں ہی کیوں؟ جی ہاں! یہ غم بھی محض گناہوں کا ہی نتیجہ ہیں۔دُنیا کے شروع سے ہی لوگ غموں کا شکار ہیں۔ محض ہم ہی نہیں بلکہ آدم اور حوا کو گناہ کرنے سے پہلے کوئی غم نہیں تھا، لیکن گناہ کرنے کے بعدیقیناً اُنہیں بھی بہت سارے غموں نے آ گھیرا ہو گا۔ شاید وہ بھی باغِ عدن سے نکالے جانے کے لئے اپنی ساری زندگی ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہراتے رہے ہوں گے۔یہ بات تو ہم جانتے ہی ہیں کہ اُن کی اولاد میں سے ”قائین“ نافرمان نکلا تھا۔اگر وہ گناہ سے باز رہتے تو کیا اُنہیں اِن ساری مشکلات کا سامنہ کرنا پڑتا؟اگر وہ خدا کی نافرمانی نہ کرتے تو صورتحال فرق ہوتی۔
سائنس جتنی مرضی ترقی کر لے لیکن وہ ایسی کوئی دوا ایجاد نہیں کر سکتی جو ہمیں گناہ جیسی بیماری سے چھٹکارا دلوا سکے۔ یہ کام اپنی کوشش سے ہی کرنا ہے۔کوشش کریں کہ یہ کام جلد از جلد کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آخری سٹیج آ پہنچے اور آپ کو بعد میں پچھتانا پڑے۔ خدا ہمیں بار بار موقع دیتا ہے کہ ہم توبہ کر لیں اور اپنی اس بیماری سے نجات حاصل کر لیں۔
اور یہ آمد کے ایام ہمارے لئے خوبصورت موقع ہیں کہ ہم اپنے گناہوں پر پشیمان ہوں اور یقین رکھیئے وہ رحیم خداضرور معاف کرے گا۔ اِسی طرح آج ہی اپنی رُوح کی بیماری (گناہ) سے نجات حاصل کرنے کے لئے اعتراف کریں۔اور آج سے ہی دُعا اور بائبل مقدس پڑھنے اور اُس پر عمل کرنے جیسے سیفٹی پری کوشنز بھی بِلا ناغہ لیتے رہیں۔خدا کرے یہ آمد کے بابرکت ایام ہمارے لئے گناہ سے نجات دلا کے ہمارا ملاپ خدا کے ساتھ کروانے والے ایام ثابت ہوں۔آمین

Daily Program

Livesteam thumbnail