آج کے رہزن کل کے رہنما۔۔کیسے؟؟
جوانی خدا کی طرف سے بہت بڑی برکت ہے۔اس عمر میں انسان جو ٹھان لے وہ کر گزرتا ہے۔لیکن آج کا نوجوان اپنی صلاحیتوں سے ہی واقیف نہیں اور جن کومعلوم ہے وہ انہیں بے دریغ غلط کاموں میں خرچ کر رہے ہیں۔ جنہیں کل کا رہبر بننا ہے وہ آج کے رہزن بنتے جارہے ہیں۔ تعلیمی و تربیتی لحاظ سے یہاں کی مٹی بڑی زرخیز ہے لیکن حالات کسی اور چیز کی عکاسی کررہے۔ مثبت پہلو کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ والدین کی طرف سے دی گئی آزادی کا ناجائز استعمال ہورہا ہے۔تعلیمی اداروں کے آس پاس ہوٹلوں کی طرف دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ باپ کے پاس گھر کا کرایہ دینے کے پیسے نہیں اور بچے ہوٹلوں میں ایسے بیٹھے ہیں، جیسے کروڑوں کے مالک ہیں۔
انٹرنیٹ بالخصوص سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال نے قوم کے مستقبل کوخطرے میں ڈال دیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے بے تحاشا استعمال نے نوجوانوں کے کردار کو سستے داموں میں فروخت کردیا ہے۔ نوجوانوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال پرافسوس ہوتا ہے کہ وہ کس طرح آسانی سے مختلف بْرائیوں کی نذر ہور ہے ہیں۔
اخلاقی بے راہ روی میں مبتلا ہوکر نہ صرف جرائم بلکہ مختلف منشیات کی عادی ہوکر ذہنی طور پر بھی مفلوج ہورہیں جو نہ صرف ہماری تہذیب اور اخلاقی اقدار کے خلاف ہے بلکہ مذہبی عقائد کے منافی بھی ہے۔ بعض بے ضمیر کاروباری ادارے بھی اپنی نوجوان نسل کو بگاڑنے، اْسے ہر طرح سے آلودہ کرنے اور مختلف ناجائز اور غیر قانونی دھندوں میں دھکیلنے میں مصروف ہیں۔ معاشرتی زندگی اس وقت خطرناک موڑ پر کھڑی ہوئی ہے۔آج لمحہ فکریہ ہے کہ نوجوان کیسے چوری،ڈاکا زنی اور بہت سے جرائم کرتے نظر آتے ہیں۔اور جانچ پڑتال کے بعد پتہ چلتا ہے کہ نوکری نہ ملنے کی وجہ سے ایسا کیا۔
جبکہ بچوں کو سکھانے اور سمجھانے کی ضروت ہے کہ غلط کام کبھی بھی اچھا نہیں ہوتا دیکھنے میں آسان اور سیدھا لگتا ہے پر حقیقت میں غلط ہوتا ہے۔۔ایسے کاموں کی اجازت نہ تو مذہب دیتا ہے نہ معاشرہ۔اور اگر آج کا جونوان رہزن بنے کا تو پھر کل کا رہنما کون ہوگا اور کیسے؟
ایسی صورتحال میں علم و شعور سے آگاہی ہی نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کو روکنے کا واحد حل ہے۔ نوجوان ہی ملک و ملت کی ڈوبتے بیڑے کو پار لگانے کا واحد سہارا ہیں۔ شعور ہی انہیں اچھا شہری اور اچھا انسان بنائے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنی درست راہ کا تعین کرکے اس پر محنت کے ساتھ گامزن ہوں۔
طلباء کیلئے نئے رجحانات ایک چیلنج ہیں جو ان کو تعلیم سے دور کر رہے ہیں۔ ایسے میں نوجوانوں کو چاہیے کہ صیح اور غلط کا فرق سمجھیں، خود کو بچائیں تاکہ زمانے اور معاشر ے کے ظالم ہتھکنڈوں سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے مستقبل کے رہنما بنیں۔اسی زمرے میں شاعرِمشرق علامہ اقبال نے خوب کہا:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی