چنگیر۔ دستکاری کا شاہکار

چنگیر۔ دستکاری کا شاہکار

لفظ ”چنگیر“فارسی زبان کا لفظ ہے،روٹیاں رکھنے کے لیے ایک قسم کی پھیلی ہوئی پیندے والی ٹوکری عموماً چنگیر کہلاتی ہے۔ ایک زمانہ میں ہاتھ کی بنی ہوئی چھابی (چنگیر) کو لوگ شوق سے خریدا کرتے تھے بہت خوبصورت اور کلرفل آرٹ کا شاہکار ہوا کرتی تھی۔ جدید دور اور مشینری کے آنے سے اب تو پلاسٹک نے چنگیر کی جگہ لے لی۔پنجابی میں چنگیر کو چھابی کہا جاتا ہے،جبکہ ہندکو میں اسے چھکوری کہتے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں جہاں دیگر دستکاریاں قابل ذکر ہیں وہاں چنگیر کے بغیر ہماری ثقافت کا رنگ بھی پھیکا نظر آتا ہے۔ نو بیاہتا دلہنوں کا جہیز چنگیر کے بغیر نامکمل ہوتا تھا۔ماضی قریب ہی کی تو بات ہے کہ ریلوے سٹیشن جہاں دن رات رونق نظر آتی۔ریلوے سٹیشن پر سجی دکانوں پر لوہے کی میخوں سے لٹکی چنگیریں سٹیشن پر آنے والے ہر مسافر کو اپنی جانب متوجہ کر لیتیں،جنوبی پنجاب میں قریبی رشتہ داروں یا مہمانوں کوواپسی پر خوبصورت رنگوں سے مزین چنگیریں اُس کو دان کی جاتیں دیہی زندگی کا یہ ایک ایسا تحفہ تھا جس سے خلوص چھلکتا تھا۔
کھجور کے پتوں سے تیارکردہ چنگیریں جنوبی پنجاب کے خطہ میں ثقافت کی علامت تصور کی جاتیں جنہیں آہستہ آہستہ وقت کی تیز رفتار کا جبڑا نگل گیا،گھر کی سگھڑ خاتون کے ہاتھوں کا شاہکار کھجور کے پتوں اور گندم کی نالیوں سے تیارکردہ چنگیریں اپنے اندر سادگی اور خوبصورتی کا حسیں امتزاج رکھتی تھیں۔ ان کی دو اقسام ہوتی ہیں سادہ چنگیریں اور رنگین چنگیریں۔ سادہ چنگیروں میں کھجور کے عام پتے استعمال کئے جاتے جو رنگ کے بغیر ہوتے تھے البتہ ان دونوں چنگیروں کی تکمیل میں بنانے اور پتوں کو گیلا کرکے استعمال کرنے کا فن مشترکہ تھا۔ پتوں کو گیلا اس لئے کیا جاتا تھا تاکہ چنگیر بناتے وقت سوکھے پتے ٹوٹ نہ جائیں جبکہ رنگین چنگیروں میں کھجور کے پتوں کو مختلف رنگوں میں رنگ دیکر مہارت کے ساتھ اس طرح ترتیب دی جاتی ہے کہ یہ دیکھنے میں انتہائی خوبصورت اور پرکشش نظر آتیں۔ دیہی علاقوں میں جب بھی کوئی مہمان کسی کے ہاں قیام کرتا تو اُس کی خاطر تواضع کے لئے کھانا چنگیروں میں رکھ کر پیش کیا جاتااور
کھانے کے تقدس اور مہمان نوازی کے پیش نظر چنگیر میں رکھی روٹیوں کو خوبصورت کپڑے کے ٹکڑے جس پر ٹھپہ لگا کر ڈیزائننگ کی ہوتی تھی اور اسے پونا کہا جاتا تھا سے ڈھانپا جاتا وقت ایک سا نہیں رہتا وقت نے آنکھیں پھیریں تو چنگیروں کی جگہ پلاسٹک کی چھابیوں نے لے لی۔
ڈنرسیٹ اور پلاسٹک یا شیشے کے برتنوں میں کھانا پیش کرنا قابل فخر بات ٹھہری، جبکہ چنگیروں میں کھانا پیش کرنا جو دور گزشتہ کی روایت اور ثقافت تھی دم توڑ گئی۔ چنگیر کے استعمال سے ایک تو سادگی کا تاثر ملتا تھا دوسرا اگر ایک طرف قیمتی ڈنرسیٹ ہوں اور دوسری طرف سادہ چنگیروں میں کھانا موجود ہو تو تہذیب و ثقافت کے اظہار کے طور پر چنگیروں کو ہی ترجیح دی جاتی۔آج بھی وسیب میں چنگیریں گھروں میں تیار کی جاتی ہیں تاہم دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ نشیبی علاقہ کی خواتین اس قدیم ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں دستکاری کے کام سے منسلک بہت سی غریب خواتین جنہیں ان کی حقیقی محنت کا صلہ تو نہیں مل پاتا اور چنگیروں کی فروخت سے نسبتاََ کم منافع ان کے حصہ میں آتا ہے وہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے،گھریلو ضروریات پوری کرنے کیلئے اس فن کو آگے بڑھا رہی ہیں انہی ہاتھوں سے بنی ہوئی آج کے جدید دور میں بھی چنگیریں دکانوں پر فروخت ہوتی نظر آتی ہیں، دیہی علاقوں کے یہ پر خلوص باسی اپنے ہاں آنے والے شہری رشتے داروں کو اپنے دیہی تحفہ چنگیروں کو دینا نہیں بھولتے، کچھ لوگ تو خصوصاً فرمائشی طور پر بھی چنگیریں بنواتے ہیں۔
چنگیر کی تیاری میں تازہ کھجور کے پتے استعمال ہوتے ہیں، چنگیروں میں بنائے گئے خوش نما ڈیزائن آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں اور ان کی خوبصورتی سے بنانے والے کی مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض چنگیروں کے کنارے پر لہریے دار ڈیزائن بھی بنا دیا جاتا ہے، اور بعض کے درمیان میں ایک ایک پھول بنا دیا جاتا ہے جس سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے، چنگیروں کے علاوہ کھجور سے پتوں سے تیارکردہ ناشتہ دان بھی اپنے مثال آپ ہیں ان میں کھانا رکھا جاتا ہے یا کھانا کہیں لے جانے میں استعمال ہوتا ہے، چنگیریں ہماری ثقافت کا حصہ ہیں مگر شہروں میں یہ روایت ختم ہوتی جا رہی ہے اب ان کی جگہ ڈنرسیٹ، پلاسٹک یا شیشے کے برتن لے رہے ہیں البتہ دیہاتوں میں اب بھی چنگیریں ہمارے کلچر اور تہذیب کی علامت کے طور پر تیار کی جاتی ہیں۔
جھنگ کے علاقہ میں گھریلو سطح پر کھجور کے پتوں سے تیار کردہ چنگیریں اس علاقے کی ثقافتی علامت تصور کی جاتی ہیں۔ دو بنیادی اقسام (رنگ دار اور سادہ) کی حامل یہ چنگیریں اپنے اندر سادگی اور خوبصورتی کا  سین امتزاج رکھتی ہیں۔تاہم اس ثقافتی علامت کو آج کے جدید دور میں بھی زندہ رکھنے والی دستکاری سے منسلک مزدور خواتین کم اُجرت کے باعث پریشان نظر آتی ہیں 
جھنگ کا نواحی گاؤں مسن، کھجور کے باغات کی وجہ سے ایک معروف علاقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن بہت قلیل لوگوں کو علم ہے کہ یہاں کجھور کے پتوں سے گھروں میں تیار کی جانے والی رنگین چنگیروں کو جھنگ بھر میں پسند کیا جاتا ہے بلکہ یہاں بنی چنگیریں پاکستان بھر میں اپنی خوبصورتی کی بنا پر مشہور ہیں یہاں کی عورتیں آج بھی کھجور کے پتوں سے نہ صرف چنگیریں تیار کرتی ہیں بلکہ ناشتہ دان،ہاتھوں سے جھلنے والے پنکھے اور چارپائیوں پر بچھانے کیلئے پٹی دار مصلے بھی ان پتوں سے تیار کئے جاتے ہیں  
وقت نے ایسی کروٹ بدلی کہ ہم سے ہماری ثقافت تک چھن گئی زمانے نے اپنا پیراہن بدلا۔ نئی نسل شاید چنگیر کے نام سے بھی نابلد ہوتی جارہی ہے ہماری ثقافت کی نشانی ”چنگیر“ کو وہ اب گزرے زمانے کی فضولیات میں شمار کرتی ہے خوشی کی بات یہ ہے بڑی عمر کی عورتیں گاہے بگاہے پڑھی لکھی نوجوان نسل کو اس ثقافتی ورثہ سے آگاہ کرتی رہتی ہیں اور بازار جانے کا جب بھی ان بڑی بوڑھیوں نے قصد کیا تو چنگیر لانا نہ بھولیں دیہی علاقوں میں اب چنگیر کا استعمال خال خال نظر آتا ہے تاہم اب بھی بہت سے دیہی گھرانے مہمانوں کو چنگیر میں روٹی رکھ کر دینا اپنا فرضِ اولیں سمجھتے ہیں۔سادہ پتوں سے بھی بڑی چنگیر تیار کی جاتی ہے جس میں دیہی لوگ شادی کے موقع پر ”لاگی“کو گْڑ یا شکر رکھ کر دیا کرتے تھے۔
رنگوں کا حسین امتزاج ہاتھوں سے بننے والی چنگیر کو چار چاند لگا دیتا ہے رنگ کئے پتوں سے جو بڑی چنگیر تکمیل پاتی ہے اس میں تیس سے چھتیس رنگوں والے پتے استعمال ہوتے ہیں جبکہ چھوٹی چنگیر میں بیس اور درمیانی چنگیر میں پچیس رنگوں کے پتے ہاتھوں کے فن سے گندھے جاتے ہیں گرم ابلتے ہوئے پانی میں رنگ ڈالا جاتا ہے جس میں پتوں کو بھگو دیا جاتا ہے ان بھیگے پتوں پر بڑا گہرا رنگ آتا ہے جنہیں سکھایا جاتا ہے اور یہ رنگ اتنا پختہ ہوتا ہے کہ چنگیر بناتے وقت جب پتوں کو دوبارہ پانی میں بھگونے کا مرحلہ آتا ہے تو یہ رنگ ذرا بھی نہیں اترتا یہ بات تو سچ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں ہماری ثقافت کو جدت کے نام پر جو نقصان پہنچا اس کا ازالہ کرنا ناممکن ہے اسی کا شاخسانہ ہے کہ ثقافت سے جڑی اشیا ء کا اب ہمیں ذکر تو ملتا ہے مگر وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔
 تھل اور نشیبی خطہ کی خواتین اب بھی اس قدیم ثقافتی فن کو زندہ کیے ہوئے ہیں اور ہاتھ سے بنی ہوئی کھجور کے پتوں کی مختلف اشیاء کو بنا کر اپنے گھر کا چولہا جلا رہی ہیں نشیبی علاقہ میں تو غریب عورتیں دستکاری کو اپنا ذریعہ معاش سمجھتی ہیں 
حکومت کو چاہیے کہ پنجاب، خاص طور پر جنوبی پنجاب کے خطہ کے اس قدیم فن کو سرکاری سطح پر مختلف نمائشوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی اور غیر ملکی سطح پر پذیرائی دی جائے تا کہ محنت کش خواتین کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ معقول پیسے کما کر اپنے گھر کا نظام اچھی طرح سے چلا سکیں اور ہم اپنی ثقافت کو برقرار رکھ سکیں

Tags

Daily Program

Livesteam thumbnail