پیلو

پیلو دنیا کے قدیم ترین درختوں میں سے ایک ہے۔یہ صحراؤں کے علاوہ خلیج عرب کے گرم ساحلوں میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اسے صحرا کی سوغات بھی کہا جاتا ہے۔ یہ درخت اپنے پھل اور پھیلی ہوئی سایہ دار شاخوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اونٹ اور بکریاں اس کے پتوں کو شوق سے کھاتے ہیں۔ پتوں کا رنگ سبز جبکہ پھل سرخ مائل بہ سیاہی اور ان کا ذائقہ میٹھا قدرے شور ہوتا ہے۔
پیلو پاکستان میں پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، جبکہ ہندوستان میں بیکانیز،راجپوتانہ کے علاوہ سری لنکا،وسطی افریقہ، حبشہ، مصر، سینی گال، سوڈان، تنزانیہ اور عرب میں عام ہوتا ہے۔پیلو بنیادی طور پر مسواک کا درخت ہے اور مسو اک کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسانی تاریخ۔مختلف ادوار میں انسان نے نیم کیکر، پھلاہی، کرنج،پیلو، سکھ چین کے درختوں کی مسواک استعمال کی ہے۔ ان میں ہر درخت خواص کے اعتبار سے اہم ہے مگر پیلو ان سب پر فوقیت رکھتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی اور فارسی میں پیلو کو ہی مسواک کہتے ہیں اور انگریزی میں اسے Tooth Brush Tree کہتے ہیں۔ عربی میں اسے شجرہ مسواک اور فارسی میں درخت مسواک کہا جاتا ہے۔ علم نباتات کے مطابق اس کی دو اقسام ہیں۔پہلی قسم میں اس کا درخت کیکر سے ذرا چھوٹا ہوتا ہے۔مضبوط تنا، میلی سی چھال، رس بھرے پتے اور سبز مائل زرد پھل دیتا ہے۔
 دوسری قسم زیادہ چھتنا ورہوتی ہے۔لیکن شاخیں چھتری کے مانند جھلکی نہیں ہوتی۔چھال سفید، ہلکے سبز پتے اور سبزی مائل سفید پھول ہوتے ہیں۔ لکڑی سخت ہوتی ہے۔ جسے دیمک نہیں لگتی۔ یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم میں بادشاہوں کے تابوت اس لکڑی سے بنائے جاتے تھے۔پہلی قسم کی لکڑی کو بھی دیمک نہیں لگتی اور اس سے بنائے فرنیچر کی چمک دمک دیدنی ہوتی ہے۔ فراعین مصر کے تابوت پہلی قسم کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں۔
پیلو کے پھل اگر چہ لذیذ نہیں ہوتے پھر بھی کھائے جاتے ہیں۔پیلو پھل مارچ اوراپریل کے ماہ میں پھلتے پھولتے ہیں اور مئی جون میں اس کے پھل پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ طبی لحاظ سے یہ بھوک بڑھاتے ہیں، خون نتھارنے، پیٹ کے کیڑے مارنے اور بلغم خارج کرتے ہیں۔ تازہ پتوں اورکونپلو ں کے بھی بہت خواص رکھتی ہے۔جن اونٹنیوں اور بکریوں کی خوراک میں پیلو شامل ہو ان کا دودھ مختلف بیماریوں کا قدرتی علاج ہے۔ان کے دودھ میں پیلو کا ذائقہ اور خوشبو بھی پائی جاتی ہے۔
قدیم زمانے میں ساندل بار کے متمول زمینداروں کا ناشتہ یہی پیلوں ہوتے تھے۔ مٹھی بھر پیلو رات کو دودھ میں بھگو دیئے جاتے تھے جو صبح تک پھول کر نرم اور گداز ہو جاتے تھے جن کا کھا کر دودھ پی لیا جاتا تھا۔پیلو پاکستان میں روہی، تھل اور دامان کے علاقوں میں پیدا ہونے والا خود رو درخت جال جس کے پھل کو پیلو کہتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہ دنیا کے قدیم ترین درختوں میں سے ایک ہے۔ اس درخت کی چھاؤں اور اس کے پھل کو بابا فرید الدین گنج شکر نے اپنے کلام میں ذکر کیا ہے۔ چٹیل میدانوں اور صحراؤں میں پیدا ہونے والا یہ پودا موجودہ دور میں کم ہی دکھائی دیتاہے۔
اس پھل کو چننے یا توڑنے کا عمل کافی مشکل ہے۔ اسے عورتیں ٹولیوں کی صورت میں جا کر چنتی ہیں۔ اسے اول بیچا نہیں جاتا اور اگر کوئی عورت اسے بیچتی ہے تو اس کا وزن دستیاب ترازو میں نہیں ہوتا بلکہ ایک برتن جسے پڑوپی اور کچہی کہا جاتا ہے، میں اسے بھر کے بیچا جاتا ہے یوں پیسے فی پڑوپی یا کچی کے حساب سے لیے جاتے ہیں پڑوپی بڑا برتن اور کچی چھوٹا برتن ہوتا ہے۔ 
یہ پھلاتنا نازک ہوتا ہے کہ عموما شہروں تک نہیں پہنچتاالبتہ تھل کے قریبی شہروں میں ایک آدھ دن کے لیے دستیاب ہوتا ہے۔اکثر خواتین یہ پھل لے کر آتی ہیں اور بہت بلند آواز میں صدا لگاتی ہیں۔
 پیلوں لے پیلوں پکیاں مٹھیاں پیلوں۔
 ان خواتین کے پاس عورتوں کے ہار سنگھار کی چیزیں بھی ہوتی ہیں ان میں مساگ اور کاجل ضرور ہوتا ہے۔خواجہ غلام فرید سائیں نے دیوان فرید میں پیلوں کا ذکر کیا ہے۔ ان کی کافی صنف میں مزکور ہے کہ 
     آ رل یار چنڑوں پیلوں پکیاں نی یعنی۔ آ محبوب مل جل چنتے ہیں پیلو پک گئے ہیں۔ اس کافی صنف کو کئی گلوکاروں نے بھی گایا ہے۔
 پیلو کے کیمیائی اجزا: پیلو کو بنیادی عنصر فلورائیڈ ہے جبکہ اس میں فلورائیڈ کا ذائقہ اور خوشبو بھی پائی جاتی ہے۔فلورائیڈ دانتوں کی حفاظت کے سلسلے میں سند مانا جاتا ہے۔ پیلو میں اس کی معقول مقدار ملتی ہے۔اس کے علاوہ کلورین، گندھک، بیروزہ، دانتوں کے لئے بے حد ضروری وٹامن سی بھی پیلو میں ملتاہے۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail