ٹائٹن ایرم

یوں تو جب بھی پھول کا تصور آتا ہے تو ہمیں اکثر ایک بھینی بھینی خوشبو کا احساس ہوتا ہے لیکن دنیا میں کچھ ایسے پھول بھی ہیں جو دیکھنے میں تو خوشنما ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ان سے گلے سڑے گوشت کی بو آتی ہے جو انتہائی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔

ٹائٹن ایرم یا لاش کا پھول نامی ایک بڑا سا پھول ہے جو صرف انڈونیشیا کے جزیرے سماٹرا پایا جاتا ہے لیکن ناپیدی کے مسئلے سے دوچاریہ پھول اب جنگلوں میں کہیں کہیں اور مشکل سے ہی نظر آتا ہے۔ تاہم پچھلی چند دہائیوں میں، ٹیکنالوجی اور باغبانی کے علم میں ترقی کے سبب لاش کے پھول کو زیادہ وسیع پیمانے پر کاشت کرنے کا امکانات بڑھ چکے ہیں۔یہ بے شاخے پھول بڑے سائز کے ہوتے ہیں جن کے چاروں طرف ایک بڑا سینگ نما مرکزی کانٹا ہوتا ہے جس کے چاروں طرف قرمزی (مرون) رنگ کے پتوں کا ایک غلاف ہوتا ہے۔
اپنے نام کے مصداق یہ لاش کا پھول جب کھلتا ہے تو اس کے بڑے سے مرکزی کانٹے کے نچلے حصے میں موجود چھوٹے نر اور مادہ پھولوں سے گندی بدبو خارج ہوتی ہے جو سڑنے والے گوشت اور انتہائی بدبودارگندے پانی جیسی ہوتی ہے۔

ٹائٹن ایرم یا لاش کے پھول کا ایک طویل اور غیر متوقع سائیکل (دور) ہوتا ہے اور پہلی بار پھول آنے میں انہیں ایک دہائی تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ بالغ پودے بھی کھلنے کے درمیان برسوں کا وقت لے سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ اپنے نظام اوراوقات کے لحاظ سے کام کرتے ہیں۔ کیلیفورنیا میں بھی ٹائٹن ایرم کے پھول کھل رہے ہیں جن کی تعداد 2 ہے۔ ایک سان فرانسسکو کی کنزرویٹری آف فلاورز میں ہے جب کہ دوسرا سان ڈیاگو بوٹینک گارڈن میں ہے۔کنزرویٹری کے لاش کے پھول کا نام اسکارلیٹ ہے اور وہ آخری بار سنہ 2019 میں کھلا تھا۔ وہ حال ہی میں دوبارہ کھلنا شروع ہوا اور سان فرانسسکو کے گولڈن گیٹ پارک میں شان و شوکت کے ساتھ کھڑا ہے۔
سان ڈیاگو کا پھول ڈو جور آخری بار سنہ 2021 میں کھلا تھا۔ اس بے شاخے بڑے پھول کے اندر موجود چھوٹے چھوٹے پھول عام طور پر صرف چند دن تک رہتے ہیں۔

ان پھولوں سے آنے والی شدید بدبو کے حوالے سے سان ڈیاگو بوٹینک گارڈن کے صدرکا کہنا ہے کہ یہ بدبو کچھ ایسی ہوتی ہے جیسے اگر آپ اپنے نوعمر بچے کی گندی لانڈری لیں اور اسے ایک بڑے کالے کوڑے کے تھیلے میں ڈالیں اور پھر اس میں کچھ ہیمبرگر گوشت یا مچھلی، تھوڑا سا لہسن اور کچھ پرمیسن پنیر (اٹلی کا ایک خاص پنیر) بھی شامل کریں اور پھر اسے سڑک کے کنارے ایک انتہائی گرم دن میں تقریباً 24 گھنٹے تک چھوڑ دیں تو اس کے بعد اس سے جو بو آئے گی ویسی ہی بلامبالغہ ان پھولوں میں سے آتی ہے۔

قدرت کا کوئی بھی کام مصلحت یا مخلوق کی فلاح سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر اس بدبو کی قدرتی توجیہہ یا مصلحت کے حوالے سے بات کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس کے اردگرد ایسے کیڑے مکوڑے ہوتے ہیں جو اس سے اٹھنے والی گلی سڑی بدبو کو پسند کرتے ہیں اور وہ کیڑے ان پودوں کی پولینیشن و فرٹیلائزیشن میں مدد دیتے ہیں۔ دنیا میں بہت سے پودے ایسے ہوتے ہیں جو ایسی بو پیدا کرتے ہیں جن سے انسان تو ان سے دور رہنا ہی پسند کرے لیکن ایسے کیڑے ان کے نزدیک آئیں جو ان کی افزائش نسل کے لیے سودمند ہوں۔

Daily Program

Livesteam thumbnail