معدنی تیل”سیاہ سونا“ دنیا کی سب سے قیمتی شے
”راک آئل“ ایک قسم کا بھورے رنگ کا خام تیل ہے جس کے بلبلے مغربی پنسلوینیا کی زمین پر دیکھے گئے تھے۔ امریکی تاجر ایڈون ڈریک”راک آئل“ کی تلاش کر رہاتھا۔ ڈریک کا ارادہ اس’’راک آئل“ سے مٹی کا تیل نکالنا تھا تاکہ لیمپ روشن کیے جا سکیں۔اْس دور میں لیمپ روشن کرنے کے لیے وھیل سے کشید تیل استعمال ہوتا تھا جو رفتہ رفتہ مہنگا ہوتا جا رہا تھا۔
’اپنے قرض ادا کرو،شکست تسلیم کر لو اور گھر چلے جاؤ۔‘ یہ وہ پیغام تھا جو 27 اگست 1859 کو ڈریک کی جانب سے بھیجا گیا کیونکہ اب اْس کی مالی مدد کرنے والے کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ پیغام موصول ہونے سے قبل ہی ایک کھدائی کے دوران تیل مل گیا اور جب وہ تیل نکلا تو اس کا زور اس قدر تھا کہ اس کا فوارہ زمین سے 21 میٹر کی بلندی تک پہنچ رہا تھا۔اس واقعے نے وھیل مچھلیوں کی زندگی بچا لی اور دنیا میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ہوا۔
جہاں ڈریک کو تیل ملا اس سے چند کلومیٹر جنوب میں چند ایسی چیزیں وقوع پزیر ہوئیں کہ اس بات کا اشارہ ملنے لگا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق جب سنہ 1864 میں پنسلوینیا کے شہر پِٹ ہول میں تیل کی دریافت ہوئی اس وقت وہاں درجنوں میل کے دائرے میں 50 افراد بھی آباد نہیں تھے۔لیکن تیل کی دریافت کے ایک سال کے اندر ہی پِٹ ہول شہر میں دس ہزار افراد رہائش پذیر ہو گئے۔ 50 ہوٹل، ملک کے مصروف ترین ڈاکخانے میں سے ایک پوسٹ آفس، دو ٹیلی گرام سٹیشن اور درجنوں قحبہ خانے کھل گئے۔بدلے ہوئے حالات میں وہاں چند لوگ رئیس ہو گئے۔ لیکن پِٹ ہول ایک حقیقی اقتصادی شہر کی دیگر ضروری شرائط پر پورا نہیں اترتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کے اندر پٹ ہول کی چمک ماند پڑ گئی۔پِٹ ہول کی تیل پر منحصر معیشت زور نہیں پکڑ سکی تاہم تیل کے لیے پیاس بڑھتی اور مزید بڑھتی چلی گئی۔
اب صورتحال ایسی ہو چکی ہے کہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی معیشت تیل سے تر ہے اور یہ دنیا کی توانائی کی ایک تہائی طلب کو پورا کرتی ہے۔یہ کوئلے سے زیادہ ہے اور جوہری توانائی، پن بجلی اور غیر روایتی توانائی کے ذرائع کی مشترکہ صلاحیت سے دوگنی ہے۔تیل اور گیس توانائی کی ہماری طلب کا ایک چوتھائی حصہ پورا کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں یہ پلاسٹک کے شعبے کو بھی خام مال مہیا کرتا ہے۔ایڈون ڈریک نے سوچا کہ پٹرول کون خریدے گا لیکن کمبسٹن انجن نے ان کے سوال کا جواب دے دیا۔کاروں سے لے کر ٹرکوں تک، مال بردار جہازوں سے لے کر جیٹ طیاروں تک، یہ وہ تیل ہی ہے جو ہماری دنیا کو چلا رہا ہے۔اس میں حیرت نہیں ہے کہ تیل کی قیمت ہی دنیا کی شاید سب سے اہم قیمت ہے جس پر دوسری قیمتیں منحصر کرتی ہیں۔
کچھ ممالک نے تیل کے شعبے میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ سعودی عرب تیل کے بڑے ذخائر کی بدولت روئے زمین کے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔اس کی سرکاری ملکیت والی تیل کمپنی، سعودی آرامکو امریکی کمپنی ایپل، گوگل یا ایمیزون سے کہیں زیادہ مالیت کی ہے۔آرامکو دنیا کی سب سے منافع بخش تیل کمپنی ہے جسے ”ڈرون“ حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تیل بیٹریوں کی جگہ لیے بیٹھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چلتی مشینوں کے لیے اس کا اپنا توانائی کا ذریعہ اور ہلکا ہونا چاہیے۔ایک کلوگرام پٹرول میں اتنی ہی توانائی ہوتی ہے جتنی 60 کلوگرام بیٹری میں الیکن افسوس کہ خالی بیٹریاں بھی اتنی ہی بھاری ہوتی ہیں جتنی کہ بھری ہوئی بیٹریاں۔ایک وقت تھا جب ایسا لگتا تھا کہ تیل کی قیمت قابو سے باہر ہوجائے گی۔ اسے ’پیک آئیل‘ کہا جاتا تھا۔ اس نے تیزی سے قیمتوں میں اضافے کا کام کیا اور ہمیں ایک صاف اور قابل تجدید معیشت کی طرف بڑھنے کی ترغیب دی۔لیکن در حقیقت آج تیل کی جتنی کھپت ہے اس سے کہیں زیادہ جلد از جلد اسے دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔