سیاہ کوئلہ، سیاہ ماحول کا موجب
دوکی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 230 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ کوئلے کی کان کنی کے باعث اڑنے والی دُھول سے صحت عامہ کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود خیبر پختونخوا اور پڑوسی ملک افغانستان کے دُور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے خاندان کوئلے کے ان میدانوں کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔یہاں کے لوگ کوئلے کی دھول اور کالے دھوئیں میں سانس لے رہے ہیں لیکن ان کے پاس کوئلے کے اس میدان میں رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہاں مقامی بچوں کی ایک بڑی تعداد پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا ہوکر اسپتال پہنچتی ہے۔
کوئلہ جسے مقامی لوگ ’کالا سونا‘ کہتے ہیں پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں فیکٹریوں، اینٹوں کے بھٹوں اور توانائی کے شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔ کوئلے کی کان میں کام کرنے کا نقصان یہ ہے کہ کان کنوں کے بچے زہریلی ہوا میں سانس لے رہے ہوتے ہیں۔
کوئلے کی سطحی کان کنی کی جگہوں کے قریب رہنے والے بچے دمے اور سانس کی دیگر بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ مقامی ڈاکٹروں کے مطابق کوئلے کی دھول کے باعث بچوں میں سانس لینے میں دشواری اور سینے میں انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔
پاکستان کا تقریباً 50 فیصد کوئلہ، معدنیات سے مالا مال صوبے بلوچستان میں پیدا ہوتا ہے اور کوئلے کی کان کنی صوبے کی آمدنی کاایک اہم ذریعہ ہے۔ دوکی اور چمالنگ میں کوئلے کی کانوں میں 15 سے 20 ہزار مزدور کام کرتے ہیں، جن میں سے اکثر باضابطہ ملازم نہیں ہیں۔ یہاں تقریباً 5 سے 6 ہزار خاندان ایسے ہیں جو ان سیکڑوں کانوں کے اطراف میں رہتے ہیں۔ چمالنگ کی کانیں خطے کی سب سے بڑی کانوں میں شمار ہوتی ہیں۔یہ پورا علاقہ گرد اور دھوئیں سے اٹا ہوا ہے اور یہاں بارش بھی نہیں ہوتی۔یہاں کے رہائشی اپنے بچوں کی صحت اور تاریک مستقبل کی وجہ سے پریشان ہیں۔
کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے زیادہ تر مزدور ٹی بی کا شکار ہیں۔ یہ بیماری خاندان کے دیگر افراد میں بھی پھیلتی ہے کیونکہ یہ ایک بیکٹیریل انفیکشن ہے۔جب کوئی بچہ گرد و غبار سے بھری ہوا میں سانس لیتا ہے تو اس کے نظام تنفس پر بُرا اثر پڑتا ہے اور اس سے الرجی ہوتی ہے۔ بچے زیادہ خطرے سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ ان کی سانس کی نالی بڑوں کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہے اس لیے سوزش کے نتیجے میں ان کا دم گھٹ سکتا ہے۔
ایسی صورتِ حال میں دھول کو کنٹرول کرنے کے لیے کام کی جگہ پر پانی کے چھڑکاؤ کے نظام کوبحال کرنے کی ضرورت ہے نیز حکومتی سطح پر اسی طرح کے دیگر اہم اقدامات کیے جائیں جن سے آلودگی اور بیماریوں سے بچا جا سکے۔