ادرک ہماری صحت کا ضامن
دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ادرک کی خوبیوں کے گن گائے جاتے ہیں اور بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ عرب تاجروں کے ذریعے ادرک نے دنیا کا سفر کیا۔ جب ادرک نے یونان کی سرزمین پر قدم رکھا اور یونانی اس کی خوبیوں سے آگاہ ہوئے تو اسے دوا میں استعمال کیا گیا اور یوں یونانی طب کا اہم حصہ بن گیا۔
طب یونانی میں پیٹ کی درستگی کو اہم تسلیم کیا جاتا ہے اور ادرک اس کام میں اس کا مددگار ہے۔ عربی فارسی کے علاوہ یورپ کے کلاسیکی ادب میں بھی ادرک کا ذکر ملتا ہے۔ ہنری ہشتم نے اسے طاعون کا علاج بتایا اور ملکہ الیزبیتھ اول نے ادرک، سونف اور دارچینی کے سفوف کو ہاضمے کا دوست قرار دیا تھا۔جب حکیموں اور ویدو کا چلن عام تھا ہمارے باورچی خانے میں موجود مصالحے اور سبزیاں ان کے علاج کا حصہ ہوا کرتے تھے اور یہ طبی نسخے در حقیقت بڑے مفید اور مؤثر ہوتے تھے یعنی 'ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا‘۔ اور آج کل ہم چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے نزدیک کے ہسپتال کا رخ کرتے ہیں یا پھر کسی دوا کی دکان سے دوا خرید لاتے ہیں لیکن بھول کر بھی یاد نہیں کرتے کہ قدرت کے خزانے میں کسی دوا کی کمی نہیں اور ہماری روز مرہ کی زندگی میں ان کا بڑا اہم حصہ ہے۔
بات کرتے ہیں ادرک کی جو ہرکسی کے باورچی خانے میں ہوتا تھا اور روزمرہ کے کھانوں میں استعمال ہوتا تھا۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ ادرک کی چھوٹی سی جڑ ہماری صحت کا ضامن اور کئی بیماریوں کا علاج ہے؟ادرک ترکاریوں،گوشت اور مرغ سے بنائے پکوان میں استعمال ہوتا ہے اور انھیں زود ہضم بناتا ہے۔ جبکہ ادرک والی چائے تو بہت عام ہے۔ادرک ہاضم ہے، دل کے عضلات کو قوی بناتا ہے، جوڑوں کے درد کو رفع کرتا ہے۔ سردی، زکام اور کھانسی کا علاج ہے اور ساتھ ہی جسم میں گرمی پہنچاتا ہے۔