سپاہی مقبول حسین(سچا محب وطن)

ستمبر 2005 ء کو واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی حکام نے قیدیوں کا ایک گروپ پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔اس گروپ میں مختلف نوعیت کے قیدی تھے۔ان کے ہاتھوں میں گٹھڑیوں کی شکل میں کچھ سامان تھا جو شاید ان کے کپڑے وغیرہ تھے۔لیکن اس گروپ میں ساٹھ پینسٹھ سالہ ایک ایسا پاکستانی بھی شامل تھا۔جس کے ہاتھوں میں کوئی گٹھڑی نہ تھی۔

جسم پر ہڈیوں اور ان ہڈیوں کے ساتھ چمٹی ہوئی اس کی کھال کے علاوہ گوشت کا کوئی نام نہیں تھااور جسم اس طرح مڑا ہوا تھا جیسے پتنگ کا اْوپر والا حصہ مْڑا ہوتا ہے۔خودرو جھاڑیوں کی طرح سرکے بے ترتیب بال جنہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ طویل عرصے تک ان بالوں نے تیل یا کنگھی کی شکل تک نہیں دیکھی ہو گی۔اور دْکھ کی بات یہ کہ پاکستان داخل ہونے والے اس قیدی کی زبان بھی کٹی ہوئی تھی لیکن ان سارے مصائب کے باوجود اس قیدی میں ایک چیز بڑی مختلف تھی اور وہ تھیں اس کی آنکھیں، جن میں ایک عجیب سی چمک تھی۔پاکستانی حکام کی طرف سے ابتدائی کارروائی کے بعد ان سارے قیدیوں کو فارغ کردیا گیا۔سارے قیدی اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔لیکن یہ بوڑھا قیدی اپنے گھر جانے کی بجائے ایک عجیب منزل کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔کانپتے اور ناتواں ہاتھوں سے وہ ٹوٹے ہوئے الفاظ لکھ لکھ کر اپنی منزل کا پتہ پوچھتا رہا اور ہر کوئی اسے ایک غریب سائل سمجھ کر اس کی رہنمائی کرتا رہا۔اور یوں 2005 ء میں یہ بوڑھا شخص پاکستان آرمی کی آزاد کشمیر رجمنٹ تک پہنچ گیا وہاں پہنچ کر اس نے ایک عجیب دعوی کردیا۔اس دعوے کے پیش نظر اس شخص کو رجمنٹ کمانڈر کے سامنے پیش کردیا۔کمانڈر کے سامنے پیش ہوتے ہی نہ جانے اس بوڑھے ناتواں شخص میں کہاں سے اتنی طاقت آگئی کہ اس نے ایک نوجوان فوجی کی طرح کمانڈر کو سلیوٹ کیا اور ایک کاغذ پر ٹوٹے ہوئے الفاظ میں لکھا۔

”سپاہی مقبول حسین نمبر 335139 ڈیوٹی پر آگیا ہے اور اپنے کمانڈر کے حکم کا منتظر ہے“کمانڈر کو کٹی ہوئی زبان کے اس لاغر، ناتواں اور بدحواس شخص کے اس دعوے نے حیران کر دیا۔کمانڈر کبھی اس تحریر کو دیکھتا اور کبھی اس بوڑھے شخص کو جس نے ابھی کچھ دیر پہلے ایک نوجوان فوجی کی طرح بھرپور سلیوٹ کیا تھا۔کمانڈر کے حکم پر قیدی کے لکھے ہوئے نام اور نمبر کی مدد سے جب فوجی ریکارڈ کی پرانی فائلوں کی گرد جھاڑی گئی اور اس شخص کے رشتہ داروں کو ڈھونڈ کے لایا گیا۔تب ایک دل دہلا دینے والی داستان سامنے آئی اور یہ داستان جاننے کے بعد اب پھولوں، فیتوں اور سٹارز والے اس لاغر شخص کو سلیوٹ مار رہے تھے۔اس شخص کا نام سپاہی مقبول حسین تھا۔1965 ء کی جنگ میں سپاہی مقبول حسین کیپٹن شیر کی قیادت میں دشمن کے علاقے میں اسلحہ کے ایک ڈپو کو تباہ کرکے واپس آرہا تھا کہ دشمن سے جھڑپ ہو گئی۔سپاہی مقبول حسین جو اپنی پشت پر وائرلیس سیٹ اْٹھائے اپنے افسران کے لئے پیغام رسانی کے فرائض کے ساتھ ہاتھ میں اْٹھائی گن سے دشمن کا مقابلہ بھی کر رہا تھا مقابلے میں زخمی ہو گیا۔سپاہی اسے اْٹھا کر واپس لانے لگے تو سپاہی مقبول حسین نے انکار کرتے ہوئے کہاکہ بجائے میں زخمی حالت میں آپ کا بوجھ بنوں، میں دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے آپ کیلئے محفوظ راستہ مہیا کرتا ہوں۔ساتھیوں کا اصرار دیکھ کر مقبول حسین نے ایک چال چلی اور خود کو چھوٹی کھائی میں گرِا کر اپنے ساتھیوں کی نظروں سے اوجھل کرلیا۔ دوست تلاش کے بعد واپس لوٹ گئے تو اس نے ایک مرتبہ پھر دشمن کے فوجیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اسی دوران دشمن کے ایک گولے نے سپاہی مقبول حسین کو شدید زخمی کردیا۔ وہ بے ہوش ہو کر گرِپڑا اور دشمن نے اسے گرفتار کرلیا۔ جنگ کے بادل چھٹے تو دونوں ملکوں کے درمیان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہوا تو بھارت نے کہیں بھی سپاہی مقبول حسین کا ذکرنہ کیا۔اس لئے ہماری فوج نے بھی سپاہی مقبول حسین کو شہید تصورکرلیا۔اِدھربھارتی فوج خوبصورت اور کڑیل جسم کے مالک سپاہی مقبول حسین کی زبان کھلوانے کیلئے اس پر ظلم کے پہاڑ توڑنے لگی۔اسے 4X4فٹ کے ایک پنجرا نما کوٹھڑی میں قید کردیا گیا۔ جہاں وہ نہ بیٹھ سکتا تھا نہ لیٹ سکتا تھا۔دشمن انسان سوز مظالم کے باوجود اس سے کچھ اگلوانہ سکا۔سپاہی مقبول حسین کی بہادری اور ثابت قدمی نے بھارتی فوجی افسران کو پاگل کردیا۔جب انہوں نے دیکھا کہ مقبول حسین کوئی راز نہیں بتاتا تو وہ اپنی تسکین کیلئے مقبول حسین کو تشدد کا نشانہ بنا کر کہتے ”کہو پاکستان مردہ باد“ اور سپاہی مقبول حسین اپنی ساری توانائی اکٹھی کرکے نعرہ مارتا پاکستان زندہ باد، جو بھارتی فوجیوں کو مزید غصہ دلاتا۔وہ چلانے لگتے اور سپاہی مقبول کو پاگل پاگل کہنا شروع کردیتے اور کہتے کہ یہ پاکستانی فوجی پاگل اپنی جان کا دشمن ہے اورسپاہی مقبول حسین کہتا ہاں میں پاگل ہوں۔ہاں میں پاگل ہوں۔ اپنے ملک کے ایک ایک ایک ذرّے کے لئے۔ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کے کونے کونے کے دفاع کیلئے۔ ہاں میں پاگل ہوں اپنے ملک کی عزت و وقار کے لئے۔ سپاہی مقبول حسین کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ دشمنوں کے ذہنوں پر ہتھوڑوں کی طرح لگتے۔ آخر انہوں  بدلہ لینے کا فیصلہ کرلیا اور انہوں نے سپاہی مقبول حسین کی زبان کاٹ دی اور اسے پھر 4x4 کی اندھیری کوٹھڑی میں ڈال دیا۔سپاہی مقبول حسین نے 1965ء سے لیکر 2005ء تک اپنی زندگی کے چالیس سال اس کوٹھڑی میں گزار دیئے۔ اب وہ کٹی زبان سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ تو نہیں لگا سکتا تھا لیکن اپنے جسم پر لباس کے نام پر پہنے چیتھڑوں کی مدد سے 4x4 فٹ کوٹھڑی کی دیوار کے ایک حصے کو صاف کرتا اور ا پنے جسم سے رستے ہوئے خون کی مدد سے وہاں پاکستان زندہ باد لکھ دیتا۔یوں سپاہی مقبول حسین اپنی زندگی کے دن اپنے وطن کی محبت کے پاگل پن میں گزارتا رہا۔ آئیں ہم مل کر آج ایسے سارے پاگلوں کو سلیوٹ کریں جنہوں نے اپنی جان کی پروا کئے بنا ملکِ پاکستان کے وقار کو زندہ اور قائم رکھا۔اور دشمن کے ظلم کے باوجود ہار نہیں مانی۔خدا ہمیں بھی ایسا سچا محب وطن بنائے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail