تعلیم سے شعور
اس تصویر میں دو لڑکیاں ہیں دونوں ہی بہت کم عمر ہیں۔ایک دلہن کے لباس میں ملبوس ہے جبکہ دوسری اسکول کے کپڑوں میں ہے۔پہلی تصویر میں صاف ظاہر ہے کہ بہت سی لڑکیوں کی کم عمری میں زبردستی شادی کردی جاتی ہے۔ دوسری لڑکی جو اسکول کے کپڑوں میں ملبوس ہے اس کو زنجیروں نے جکڑا ہوا ہے جس سے ظاہر ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے نہیں دی جاتی اور اگر لڑکیوں کو پڑھایا بھی جاتا ہے تو ان کی شادی کے بعد ان کے خواب ادھورے رہ جاتے ہیں۔تعلیم ان کے رشتوں میں رکاوٹ بن جاتی ہے زیادہ پڑھی لکھی لڑکی کو پرانی سوچ والے لوگ اچھا نہیں سمجھتے۔اور یہ کہہ کر رشتے سے انکار کردیتے ہیں کہ لڑکی کی عمر زیادہ ہے۔ اتنے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود آج بھی کئی ذہنوں میں وہی بوسیدہ پرانے خیالات ہیں کہ لڑکیوں کو پڑھنا نہیں چاہیے۔لڑکی اپنے ملک کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لڑکی کمزور ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں نے لڑکی کو یہ کہا کہ لڑکی کمزور ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ تم طاقتور کیسے بن سکتی ہو؟ایک پڑھی لکھی لڑکی اپنے لیے آواز اْٹھا سکتی ہے اپنے ملک کی ترقی میں حصہ دار بن سکتی ہے۔ جس ملک کی عورت پڑھی لکھی ہوگی اس ملک کے نوجوان بھی تعلیم یافتہ ہوں گے۔کیونکہ نپولین نے کہا تھا:تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو۔میں تمہیں بہترین قوم دوں گا۔ اس لئے لڑکیوں کو تعلیم دیناضروری ہے۔اگر پہلی تصویر کی بات کریں تو اْس میں ایک کم عمربچی شادی کے کپڑے اور پاؤں پر مہندی لگائے بیٹھی ہے۔جو شاید 14 سال کی ہو۔11 سے 22 سال کی عمر جو کہ انسان کی زندگی کا سب سے بہترین عرصہ ہوتا ہے اس میں انسان کی سوچ پختہ ہونے لگتی ہے۔یہ سنہری دور ہوتا ہے جس میں انسان اپنے خوابوں کی تکمیل کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ بہت سی لڑکیاں جن کی آنکھوں میں ہزاروں لاکھوں خواب ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھ لکھ کر کچھ کرنا ہے لیکن ان کے والدین ان کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں۔ان کے خوابوں کو ایک قبر میں دفنا دیا جاتا ہے اور وہ خواب صرف خواب ہی رہ جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سوچ کے مطابق لڑکیوں کو پڑھنا نہیں چاہیے انہیں آگے جا کے گھر داری کرنی ہے انہیں بچے ہی پالنے ہیں تو انہیں پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے۔ ایسی فرسودہ سوچ رکھنے والے نہیں جانتے کہ جس طرح لڑکوں کے لئے پڑھے لکھے ہونا ضروری ہے اسی طرح لڑکیوں کا علم حاصل کرنا بھی اہم ہے۔
اب اگر دوسری تصویر کے بارے میں تفصیل سے بات کریں جس میں لڑکی نے اسکول کا یونیفارم پہنا ہوا ہے۔جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ اسکول کے طالب علم ہے یعنی بہت سی لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے اور بہت جدوجہد کے بعد بمشکل گریجویشن کرتی ہیں۔ اس کے باوجود بھی لڑکیاں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی جیسے تصویر میں ظاہر ہو رہا ہے کہ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے یعنی عورت پڑھ لکھ کر بھی خود کو بندھا ہوا محسوس کرتی ہے۔بعض والدین لڑکیوں کا شوق دیکھتے ہوئے اپنی بچیوں کو پڑھاتودیتے ہیں اور پھرجب اْن کا کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تب انکی زبر دستی شادی کر دیتے ہیں اورایسی لڑکیاں سسرال جا کر نہ گھر ٹھیک سے سنبھال پاتی ہیں اور نہ ہی اپنے رشتوں کو نبھا تی ہیں۔کیونکہ اْس لڑکی نے پوری زندگی خواب دیکھا ہوتا ہے کہ پڑھنے لکھنے کے بعد کچھ بنوں گی ملک کا نام روشن کروں گی۔اس کے یہ خوب کبھی پورے نہیں ہو پاتے کیونکہ سسرال جا کر لڑکیوں کو نوکری کرنے یا پڑھنے نہیں دیا جاتا۔اور ایسے حالات میں وہ ایک ان پڑھ لڑکی کی طرح زندگی گزارتی ہے۔بہت سے لوگ اپنی بچیوں کو اس وجہ سے اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنے دیتے کیونکہ اعلی تعلیم لڑکیوں کے رشتوں میں ایک رکاوٹ بن جاتی ہے۔لڑکی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے تاکہ وہ ملک کو پڑھے لکھے نوجوان دے سکے۔ایک پڑھی لکھی اور ان پڑھ عورت میں بہت فرق ہوتا ہے پڑھی لکھی لڑکی میں شعور ہوتا ہے ہمّت ہوتی ہے ظلم کے خلاف آوازاْٹھانے کی جرات ہوتی ہے۔
جبکے ان پڑھ نہ تو اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کرسکتی ہے نہ ہی اپنے حق کے لیے بول سکتی ہے۔اگر وہ کچھ کہنے کی ہمت کرتی ہے تو اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ تم جاہل ہوتمھیں کچھ پتہ نہیں ہے۔یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو نہ تو عورت کو پڑھانا چاہتے ہیں نہ ہی ترقی کرتے دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی مرضی سے ان پڑھ کوگھر لاتے ہیں پھر اسے ان پڑھ ہونے کا طعنہ بھی دیتے ہیں۔
موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ لڑکا ہو یا لڑکی تعلیم دونوں کے لیے بہت ضروری ہے۔کیونکہ کہا جاتا ہے مرداور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہیں تو دونوں ایک جیسے ہوں گے تبھی گاڑی ٹھیک چلے گی۔اس لئے اپنے بیٹوں کی طرح بیٹیوں کی بھی تعلیمی ضرورت کو پورا کریں تاکہ ہمارے بچے باوقاراور پْر سکون زندگی گزاریں۔