باپ کا کوئی نعم البدل نہیں!
دنیا بھر میں اس سال عالمی یومِ والد 15 جون کو منایا جا رہا ہے۔ یہ دن والد سے اظہارِ محبت اور باپ کی قربانیوں کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کیلئے منایا جاتا ہے۔ نیز اس دن اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ باپ وہ ہستی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ یوم ِوالد پر بچے اپنے والد کو تحائف دے کر اپنی محبت کا اظہار کرتے،باپ کی قربانیوں کیلئے شکرگزار ہوتے اور والد کی عظمت کا سلام پیش کرتے ہیں۔ماں کی طرح باپ بھی اولاد کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ایک جانب جہاں ماں اپنی اولاد کو ہر مشکل سے دْور رکھتی ہے۔ وہیں باپ اپنی اولاد کی ہر خواہش پوری کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔
اس دن کو منانے کی ابتدا 19 جون 1910 کو واشنگٹن میں ہوئی، جب ایک بیٹی نے اپنی ماں کی وفات کے بعد اپنے والد کو محنت کرتے،گھر سنبھالتے اور اْس کے سارے بہن بھائیوں کا خیا ل رکھتے دیکھانیز دوبارہ شادی کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کیا،یہ کہتے ہوئے کہ وہ اپنے بچوں کی پرورش خود کر سکتا ہے۔اْس بیٹی نے اپنے باپ کی انہی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے یہ دن منانے کا آغاز کیا۔
یقیناباپ دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جو کہ اپنے بچوں کی پرورش کے لئے اپنی جان تک لڑا دیتا ہے۔ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ سے اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے۔اْسے زندگی میں جو کچھ نہیں مل سکا وہ اپنے بچوں کو دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت اور خوشحال زندگی بسر کرسکے۔
درحقیقت باپ کی عظمت کو ترازو میں تولانہیں جا سکتا۔اْس کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان اپنے باپ کے ساتھ کمرے میں بیٹھے گفتگو کر رہے تھے۔بات چیت کے دوران باپ نے کمرے کی کھڑکی سے باہر نظر آنے والے درخت کے اْوپر بیٹھے پرندے کے بارے میں پوچھا کہ یہ کونسا پرندہ ہے؟بیٹے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ یہ ایک کوا ہے۔کچھ دیر بعد باپ نے اپنا سوال پھر دْہرایا کہ یہ کونسا پرندہ ہے؟بیٹے حیرانگی سے باپ کی طرف دیکھا اور جواب دیا کہ یہ ایک کوا ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد باپ نے پھر اپنا سوال دْہراتے ہوئے پوچھا یہ کون ہے؟ اس بار بیٹا غصے سے بھری ہوئی آواز میں بولادو مرتبہ بتا چکا ہوں کہ یہ کوا ہے۔باپ خاموشی سے اْٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔کچھ دیر بعدجب وہ کمرے میں واپس آیا تو باپ کے ہاتھ میں ایک پْرانی ڈائری تھی۔
باپ ڈائری کے اوراق پلٹتا رہا اور کچھ تلاش کرتا رہا۔بیٹے نے باپ سے پوچھا آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟ باپ نے بالآخرایک صفحہ بیٹے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا میں تمہیں کچھ پڑھ کر سْنانے لگا ہوں جو میں نے اس صفحہ پر رقم کیا تھا۔اْس صفحے پہ لکھا تھا کہ آج میں اپنے 3سال کے بیٹے کو باغ لے کر گیااْس نے باغ کے ایک درخت پر بیٹھے پرندے کے بارے میں پوچھامیں نے بڑی محبت سے جواب دیا کہ بیٹا یہ ایک کوا ہے۔میرے بیٹے نے تقریباً30بارمجھ سے یہی سوال کیااور میں نے ہر بار بڑے پیار سے جواب دیا۔بیٹے نے جب یہ واقعہ سْنا اور خود بھی پڑھاتو اْس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔بیٹے کو شرمندگی بھی محسوس ہوئی اْٹھااور باپ کو گلے لگاتے ہوئے بولاکہ مجھے معاف کر دیجئے کہ میں ایک مرتبہ بھی محبت اور خوشی سے آپ کے کئے گئے سوال کا جواب نہیں دے سکا۔
تو آئیے!آج یوم والد مناتے ہوئے ہم خود سے یہ عہد باندھیں کہ ہم اپنے والدین بالخصوص اپنے والد سے محبت کریں۔جس طرح زندگی ایک بار ملتی ہے اسی طرح ماں اور باپ بھی زندگی میں ایک ہی بار ملتے ہیں۔
باپ کی موجودگی زندگی میں سورج کی مانند ہوتی ہے جس کی روشنی سے ہمارے اندھیرے ختم ہوتے ہیں۔اس لئے باپ کی شفقت،اْس کی قربانیوں اور اْس کی چاہت کو اپنے وجود میں اس طرح زندہ رکھیں جیسے جسم میں روح رہتی ہے۔
آپ سبھی کو یومِ والد بہت بہت مبارک ہو!
Daily Program
