گھگو گھوڑے
اگر آپ کا بچپن 90 کی دہائی یا اس سے پہلے گزرا ہے تو دیسی کھلونوں سے آپ بخوبی واقف ہوں گے۔ کاغذ کے پنکھے اور سرکنڈوں سے بنی ڈگڈگی گاڑیاں اورگھگو گھوڑے، لاہور میں آباد کئی خانہ بدوش یہی دیسی کھلونے بنا کر گزر بسر کرتے ہیں۔ گلی گلی روزی کی خاطر پھرنے اور دربدر خیموں میں زندگی بسر کرنے والے پکھی واس گھگھو گھوڑے بنانے کے فن سے نسل در نسل وابستہ ہیں۔
بے رنگ زندگی گزارنے والے خانہ بدوش رنگا رنگ گھگو گھوڑے بنا کر جہاں اپنی زندگیوں میں رنگینی کے احساس کو زندہ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں ان گھگو گھوڑوں سے ان کی روزی روٹی بھی جڑی ہوئی ہے۔ملتان میں گھگو گھوڑوں کی بستی کے مکین نسل در نسل یہ گھگو گھوڑے بنا کر گزر بسر کر رہے ہیں۔مقامی روایات کا حامل گھگو گھوڑا پرانے کاغذ اور سر کنڈے کے ٹکڑوں سے بن کر ایک منفرد شاہکار نظر آتا ہے۔
گھگو گھوڑا نہ چل سکتا ہے، نہ بول سکتا ہے اور نہ ہی سوچ سکتا ہے اب یہ خانہ بدوشوں کی مرضی ہے کہ وہ اس گھوڑے میں کیا رنگ بھرتے ہیں۔’پہلے کپڑے کو پھاڑ کر اس کی سلائی کی جاتی ہے پھر اس میں بھوسہ بھرا جاتا ہے اور اس طرح ڈھانچہ تیار کرکے کاغذ سے سجاوٹ کی جاتی ہے۔
بوسیدہ لباس میں ملبوس بنت ِحوا سر پر بھاری چھابہ اُٹھائے مٹی اور کاغذوں کے کھلونے لیکر صدا بصحرا ہے، گلی گلی اس کی صداؤں کی گونج سنائی دیتی ہے جن کی بازگشت اکثر ہماری! فضاؤں میں معلق رہتی ہے،دور کھلے صحرا میں کپڑوں کی کٹیا میں زندگی کی سانسیں گننے والوں سے ہمارا روز پالا پڑتا ہے،دہلیز پار کرتے بچے اس آواز کے منتظر ہوتے ہیں کہ کب وہ سماعت سے ٹکرائے اور اس سے گھگھو گھوڑے خرید پائیں۔
خوشیوں کے تہواروں پر بھی کپڑوں اور جوتوں سے بے نیاز یہ پکھی واس چمکیلے کاغذ اور بھوسہ سے تیار کیئے جانے والے کاغذ اور لیٹی سے بنی ڈگڈگی،دستی پنکھے،کاغذ سے بنی کلہاڑیاں،اور پرندوں کی اشکال والے آئیٹمز بنا کر دیہی علاقوں اور بڑے شہروں کی شاہراہوں پر بیٹھے ملتے ہیں۔بڑی عید جیسے تہواروں پر پورے تین روز ان شاہراہوں پر براجمان ہوتے ہیں۔۔پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر چند روپوں کے عوض کھلونے دیتے ہیں۔
د نیا کے قدیم قبائل جو اپنے ہاتھوں کی بنی اشیاء کی بنا پر انفرادیت رکھتے ہیں دریائے سندھ کے کنارے آج بھی آباد ہیں آج سے 40,45برس قبل ان قبائل کی عورتیں دستکاری کا کام نہایت عمدہ سلیقے اور قرینے سے کیا کرتی تھیں آج انہیں اس کام کی اجرت نہیں مل پاتی ان کی ہنر مندی اپنی مثال آپ تھی،گھریلو استعمال میں ان کی بنی ہوئی اشیاء ایک مقام رکھتی تھیں تفاوت یہاں آپہنچی کہ ان پکھی واس عورتوں کے ہاتھوں سے بنی اشیاء جو عام استعمال میں آتی تھیں اب عالیشان بنگلوں،کوٹھیوں،ڈرائنگ رومز میں آویزاں نمائشی طور پرسجی نظر آتی ہیں اور اسے ثقافت کا نام دیا جاتا ہے۔ان کے پاس کھلونے بنانے کا ہنر تو ہے لیکن اس کی مارکیٹنگ کا نہیں۔ شاید اسی لیے یہ کھلونے اب ختم ہوتے جا رہے ہیں۔