ڈاک کا عالمی دن
انسان کی تاریخ میں پیغام رسانی ہمیشہ سے ایک بنیادی ضرورت رہی ہے۔ کبھی دھوئیں کے اشارے، کبھی ڈھول کی آوازیں، اور کبھی پرندوں (کبوتروں)کے ذریعے خبریں پہنچائی گئیں۔ مگر جب انسان نے تحریر ایجاد کی، تو پیغام رسانی کے سفر نے ایک نیا موڑ لیا۔
قدیم مصر کے فرعونوں کے دور، تقریباً 7000 سال قبل، خطوط کی ترسیل کا پہلا باقاعدہ نظام قائم ہوا۔ عہدِ بابل میں شاہی فرمان گھڑسواروں اور اونٹوں کے ذریعے سلطنت کے کونے کونے تک پہنچائے جاتے تھے۔ چین میں ایک بادشاہ نے 2000 قبل مسیح میں ڈاک کا باقاعدہ نظام بنایا جہاں خط گھوڑوں اور خچروں کے ذریعے منزل تک پہنچتے تھے۔ پھر کبوتروں کا زمانہ آیا،یہ وہ پرندے تھے جو انسان کے پیغام کو آسمانوں کے راستے پہنچاتے اور وفاداری سے واپس لوٹ آتے۔
برصغیر میں شیر شاہ سوری نے ڈاک کے نظام کو باقاعدہ منظم شکل دی۔ 1540 تا 1545 کے دوران اس نے سڑکوں اور سراؤں کا ایک ایسا جال بچھایا جس نے سندھ سے بنگال تک رابطے ممکن بنا دیے۔وقت گزرتا گیا، خطوط کے یہ نظام دنیا کے ہر خطے میں پھیلتے گئے۔ 1712 میں سکاٹ لینڈ میں دنیا کا پہلا باقاعدہ پوسٹ آفس قائم ہوا جو آج بھی سینکوہار کے نام سے موجود ہے۔ وہیں سے پوسٹ مین یعنی ”ڈاکیا“کے پیشے نے جنم لیا۔ رفتہ رفتہ ڈاک کا دائرہ خطوں سے بڑھ کر پارسل، منی آرڈر اور بینکاری تک جا پہنچا۔
دنیا کے ڈاک کے نظام کو متحد کرنے کے لیے 1874 میں 22 ممالک نے ”یونیورسل پوسٹل یونین“ قائم کی۔ اسی یاد میں 9 اکتوبر کو ”عالمی یومِ ڈاک“ منایا جاتا ہے۔
دنیا میں آج بھی انوکھے اور حیران کن ڈاک خانے موجود ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
ڈل جھیل کا تیرتا ہوا ڈاک خانہ
مقبوضہ کشمیر کی دلکش جھیل میں ایک ہاؤس بوٹ پر بنا ”فلوٹنگ پوسٹ آفس“ آج بھی موجود ہے۔ سیلاب میں یہ تقریباً بہہ گیا تھا مگر فوج نے اسے بچا لیا۔ یہ ہزاروں مزدوروں اور ماہی گیروں کے لیے دنیا سے رابطے کا ذریعہ ہے۔
پانی کے نیچے ڈاک خانہ
جنوبی بحرالکاہل کے ملک وینوواٹو کے ساحل پر ایک ایسا پوسٹ آفس ہے جو سمندر کی تہہ میں واقع ہے۔ 2003 میں قائم ہونے والا یہ منفرد ڈاک خانہ واٹر پروف خطوط کے ذریعے دنیا بھر میں پیغام بھیجتا ہے۔
دنیا کا سرد ترین پوسٹ آفس
برف کے جہان انٹارکٹکا میں ”پینگوئن پوسٹ آفس“موجود ہے، جہاں تین خواتین ملازمین نہ صرف خطوط سنبھالتی ہیں بلکہ پینگوئنز کی گنتی بھی کرتی ہیں! یہاں سے بھیجے گئے خطوط منزل تک پہنچنے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
سب سے بلند پوسٹ آفس
بھارت کے ہکم گاؤں میں سطحِ سمندر سے 14567 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
سب سے خوبصورت پوسٹ آفس
ویت نام کے شہر ہو چی منہ کا”سائیگان سینٹرل پوسٹ آفس“اپنی شاندار تعمیر اور ایفل کے ڈیزائن کی وجہ سے آج بھی سیاحوں کو متوجہ کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی انسان خود بھی پارسل بن کر ڈاک کے ذریعے سفر کرتا تھا! انیسویں صدی میں برطانوی شہری ریجینالڈ برے نے خود کو ڈاک کے ذریعے مختلف مقامات پر بھجوایا، اور ایک بار تو اپنے پالتو کتے سمیت وہ خود ڈاک کے ذریعے مختلف مقامات پرگئیں۔ امریکا میں تو والدین اپنے بچوں کو بھی ڈاک کے ذریعے دادا دادی کے پاس بھیج دیتے تھے۔
یوں ڈاک کا سفر، مٹی کے پتھروں اور پرندوں سے شروع ہو کر انٹرنیٹ کے ڈیجیٹل پیغامات تک پہنچ گیا، بے شک زامنہ جتنی مرضی ترقی کر لے مگر آج بھی ایک لفافہ جس پر ہاتھ سے لکھا نام ہو۔ دل کی دنیا میں وہی مقام رکھتا ہے جو صدیوں پہلے رکھتا تھا۔
Daily Program
