پیپر ماشی
پیپر ماشی کو جمالیاتی فنون میں شمار کیا جاتا ہے۔پیپر ماشی کو چودہویں صدی میں ایک معتبر کاروبار کی حیثیت حاصل تھی اور اس کے نمونے مختلف معاشروں میں پسند کیے جاتے تھے۔ اس فن کو جمالیاتی فن کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ نئی دہلی حکومت کے سخت انتظامی اقدامات اور علیحدگی پسندوں کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن نے کشمیر کے تاجروں، سیاحتی صنعت سے وابستہ افراد اور فنکاروں کی صلاحیتوں کو کلی طور پر محدود کر دیا ہے۔ ایسے ہنرمندوں میں پیپر ماشی کے فن سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں۔کشمیر کی دستکاریوں میں کئی فنون شامل ہیں لیکن قالین بافی، پیپر ماشی اور لکڑی پر دلفریب نمونے بنانے کو خاندانی کاروبار اور فنون میں شمار کیا جاتا ہے۔ نسل در نسل ان فنون کی منتقلی ہوتی رہی ہے۔
پیپر ماشی کو شوخ رنگوں کی وجہ سے بہت دلکش دستکاری کے نمونے قرار دیے جاتے ہیں۔ پیپر ماشی سے وابستہ خاندان کسی دور میں انتہائی آسودہ حال ہوا کرتے تھے لیکن اب غربت نے ان کے گھروں کی راہ دیکھ لی ہے۔
اس فن میں کاغذ کے دستوں کو گیلا کر کے کوٹ کوٹ کر یک جان کر دیا جاتا ہے اور پھر اس گیلے کاغذی مواد کو مختلف صورتوں ڈال دیا جاتا ہے۔ ان نمونوں کو شوخ رنگوں سے سنوارا جاتا ہے۔مشہور صوفی بزرگ سید علی ہمدانی چودہویں صدی میں پیپر ماشی کا فن ایران سے کشمیر لائے تھے۔ ان کے ساتھ ایرانی دستکار بھی تھے اور انہوں نے مقامی کشمیری افراد کو پیپر ماشی سکھا کر اس فن کے ترویج کی۔
اختر حسین میر کا خاندان ایک صدی سے زائد عرصے سے پیپر ماشی کے کاروبار میں منسلک ہے۔اختر حسین میر نے دس برس کی عمر میں پیپر ماشی کا فن سیکھنا شروع کیا تھا۔ انہیں ان کے والد نے اس فن سے روشناس کرایا تھا۔ پانچ دہائیوں سے اس فن سے وابستہ رہنے والے افرادکے مالی حالات بہت کمزور ہوچکے ہیں کیونکہ سیاحتی صنعت کو شدید گراوٹ کا سامنا ہے۔ اس فن سے وابستہ کئی اور دستکاروں کے حالات بھی اَبرتر ہو کر رہ گئے ہیں۔