پیار کا پہاڑ
اروڑ، سکھر میں روہڑی سے چند میل کی مسافت پر جنوب مشرق میں ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ اروڑ پر چندر ونسی راجاؤں کی 450ء سے 642ء تک حکمرانی رہی۔جن کو تاریخ میں رائے گھرانہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق یہ بھی بتاتے ہیں کہ چندر ونسی گھرانے نے 1100 قبلِ مسیح میں اس شہر پر حکومت کی تھی۔ جب سکندر نے اپنی فوجوں کا رخ ہندوستان کی جانب موڑا اس وقت یہاں کا موسیکانوس کی حکومت قائم تھی جب کہ رائے سہاسی کے زمانے میں نمروز ایرانی نے حملہ کیا تھا۔ قدیم دور کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں دلچسپی رکھنے والے بالخصوص تاریخ کے طالبِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ایک زمانے میں اروڑ بڑی بندرگاہ بھی رہا ہے۔
اسی اروڑ میں ”پیار کا پہاڑ“ بھی موجود ہے۔ اس قدیم مقام سے ایک پہاڑی سلسلہ تاریخی شہر کوٹ ڈیجی سے ہوتا ہوا نارو کے صحرا تک جا پہنچتا ہے جس میں یہ چھوٹا سا پہاڑ اپنی خوب صورتی کی وجہ سے نمایاں ہے۔ زمین کی سطح سے تین سو فٹ اونچا پیار کا پہاڑ اپنی بنیادوں کے ساتھ دو ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ اس پہاڑ کے آمنے سامنے دو دراڑیں ہیں، جنھوں نے پہاڑ کو چار حصّوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان میں سے تین حصّے آج صحیح حالت میں موجود ہیں، لیکن چوتھا حصّہ خاصی حد تک منہدم ہوچکا ہے۔اس کی چوٹی پر سفید رنگ کی ایک گنبد نما عمارت ہے، جس کے اطراف چار محرابی دروازے بھی ہیں۔
اب یقیناً آپ کے ذہن میں یہ سوال ضرور اْمڈ رہا ہوگا کہ اسے ”پیار کا پہاڑ“ کیوں کہا جاتا ہے؟اس حوالے سے مقامی لوگوں میں چند باتیں مشہور ہیں جب کہ عاشق مزاج لوگ یہاں اپنی محبّت کی آزمائش اور محبوب سے وعدے نبھانے اور ساتھ دینے کی قسمیں اٹھانے کے لیے اس پہاڑ کی چوٹی پر جاتے ہیں۔ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کراتے ہیں کہ اگر وہ اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائیں تو پھر محبوب کو بھی پاسکتے ہیں، کچھ عاشق اپنے محبوب کو یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ اگر وہ نہ ملا تو اسی پہاڑ کی چوٹی سے اپنی جان دے دیں گے۔ چند سال پہلے تک اس پہاڑ پر چڑھ کر متعدد لوگوں نے خودکشی بھی کی ہے۔ مقامی لوگوں میں مشہور ہے کہ یہ پہاڑ عاشقوں کے لیے ایک امتحان اور قربان گاہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 712ء میں اروڑ فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم نے یہاں اسلامی یادگار کے طور پر سفید رنگ کا ایک گنبد تعمیر کروایا تھا، جو کچی اینٹوں اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہواؤں اور بارشوں کے باعث یہ یادگار تقریباً زبوں حالی کا شکار ہو گئی تھی۔ لیکن مقامی لوگ اسے بچانے کے لیے اپنے طور پر کوششیں کرتے رہے۔ تقریباً بیس سال قبل خمیسو فقیر نامی ایک مقامی شخص نے اس یادگار کی مرمت کروائی تھی۔ اس عمارت میں سیمنٹ اور پتھروں کا استعمال کیا گیا، اور اسی لیے اب یہ قدرتی آفات اور حوادث کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے۔
”پیار کا پہاڑ“ گویا ایک قدرتی مینار ہے جس کی چوٹی پر چڑھ کر سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ کے کنارے پر موجود تاریخی مقامات کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے لیے مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سادہ سی سیڑھیاں بنائی ہیں، جس کی مدد سے اوپر جانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔
”پیار کے پہاڑ“ کے دامن سے ایک خوب صورت ندی بھی گزرتی ہے، جسے ”کونرڑے جی ندی“ کہا جاتا ہے۔ یہ ندی بارش کے موسم میں پانی سے لبالب بھر جاتی ہے اور دل کش نظارہ پیش کرتی ہے۔کچھ روایات میں آیا ہے کہ محمد بن قاسم اور راجا داہر کے درمیان آخری معرکہ اسی پہاڑ کے دامن میں ہوا تھا۔ پہاڑ کے چاروں طرف ان سپہ سالاروں اور بزرگوں کے مزارات ہیں جن کے بارے میں قیاس یہی ہے کہ وہ محمد بن قاسم کے ساتھ آئے تھے۔
یہاں جن بزرگوں کے مزارات ہیں ان میں سید چھتن شاہ، سید نور شاہ جب کہ پہاڑ کے شمال مشرق میں درگاہ عارف فقیر بھٹی بھی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اروڑ کے بہت بڑے صوفی بزرگ اور دینی عالم تھے۔ اسی طرح ”شاہ اوٹھے پیر“کا مزار بھی پیار کے پہاڑ کے مشرق میں موجود ہے۔ آپ کے مزار کے عقب میں تھوڑی سی اونچائی پر نامور درویش محمد قاسمانی کا مزار بھی واقع ہے۔
پیار کے پہاڑ کے دامن میں سندھ کے کئی قدیم قبائل آباد ہیں، جن میں خاص طور پر سروہی، بُرڑا، کٹبر، ماڑیچا، بھیل، ہندو، میرانی اور شیخ اکثریت میں ہیں۔اس پہاڑ کو دیکھنے کے لیے دور دور سے سیّاح آتے ہیں اور چھٹیوں اور تہواروں پر خصوصاً قریبی اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ یہاں آکر وقت گزارتے ہیں اور ”پیار کا پہاڑ“ آباد ہوجاتا ہے۔