پٹّھو گرم
پرانے زمانے میں زندگی بڑی سادہ سی تھی۔ جہاں دل کیا، چند لوگ بیٹھ کر خوش گپیوں میں مشغول ہو جاتے یا سڑک پر ہی لڈو، تاش اور دوسرے اسی قسم کے کھیلوں کی منڈلی سجا لیتے۔کچھ تماشائی بن جاتے اور کھلاڑیوں کو مسلسل اپنے مشوروں سے فیض یاب کرتے رہتے تھے۔
یہی حال بچوں کا ہوتا تھا۔دن ہو یا رات بس کھیل میں ہی گزر جاتی۔دیر شام تلک بچے آپس میں مختلف کھیل کھیلتے رہتے۔یہ کھیل جہاں جسمانی صحت کے لیے مفید تھے وہیں ذہنی نشوونما کے لیے بھی مفید تھے اور اگر آج کے بچوں کی بات کی جائے تو ان کی اسطاعت محض ویڈیو گیمز تک رہ گئی ہے۔کیونکہ ان کے لیے والدین کے پاس نہ تو وقت ہے کہ ایسے کھیل کھیلائے جائیں اور نہ ہی ایسا آزادانہ ماحول جہاں پر ان بچوں کو تنہا کھیلنے کی اجازت دے دی جائے اور یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ ان بچوں کے پاس نہ تو کھیلنے کے لیے میدان باقی رہے ہیں اور نا ہی دوست احباب۔اس لیے آج کا بچہ پْرانے دور کے کھیلوں سے کہاں واقف ہوگا ۔تو چلیے آج ہم آپ کو پاکستان کے روایتی کھیل پٹھو گرم کے حوالے سے بتاتے ہیں۔
ساٹھ یا ستر کی دھائی میں جنم لینے والوں نے روایتی کھیل پٹھو گرم ضرور کھیلا ہوگا یا اس کھیل کے بارے میں جانتے ہوں گے۔یہ کھیل سندھ اور پنجاب میں بہت مقبول تھا۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے بچّوں کا آج بھی یہ پسندیدہ ترین کھیلوں میں سے ایک ہے۔ویسے تو یہ کھیل تمام بچّوں میں انتہائی مقبول تھا، لیکن لڑکے خاص طور پر بہت شوق سے کھیلتے تھے
اس کھیل کے اصول/شرائط کچھ یوں ہوتیں تھیں۔
سب سے پہلے پتھروں کے چپٹے اورہموار ٹکڑوں کو ایک ترتیب سے ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر ایک ڈھیری سی بنا لی جاتی او ر جس کی باری ہوتی تھی وہ ربڑ کی گیند اس پر پھینک کر اِسے گرانے کی کوشش کرتا تھا۔ جوں ہی وہ نیچے گر کر بکھر جاتی تو سارے بچے ادھر اُدھر بھاگ جاتے اور پھر جب کوئی بچہ اسے دوبارہ بنانے کی کوشش کرتا تودوسرے بچے بال سے اس کو مار مار کر بھاگنے پر مجبور کر دیتے۔ اس دوران کوئی دوسرا بچہ آکر ادھورا کام مکمل کرنے کی کوشش کرتا تو وہ نشانے پر آ جاتا۔ سب کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ڈھیری مکمل نہ کرنے پائے اور جو کر لیتا و ہی سکندرٹھہرتا۔
گیند کو ٹھیکریوں کے ساتھہ مارنے والا بچہ ٹھیکریوں کو درست کر دے تو اس بچے کو ایک اور باری مل جاتی اور اگر ٹھیکریوں کو درست کرنے سے پہلے مخالف کھلاڑی گیند اس بچے کو مار دیں تو اس بچے کی باری ختم ہو جائے گی۔