پراندے
الوں کی آرائش کا فن صرف خوب صورت دکھائی دینے سے بہت آگے کا ہے، کیوں کہ اس کی ثقافتی اورروایتی اہمیت ہے۔ پاکستانی ثقافت، ہندوستانی، فارسی اورافغان ثقافت کا امتزاج ہے، اس لیے خطے کے لحاظ سے مختلف ہے۔ جب بالوں کی آرائش میں مہارت حاصل کرنے کی بات آتی ہے تو اس سے ہمیں تخلیقی ہونے کی گنجائش ملتی ہے۔ بالوں کوسجانے کے لیے ان روایتی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے، آپ اپنے جدید فیشن کے اندازمیں کچھ پرانے فیشن کے ملاپ سے اپنے بالوں کو ملکوتی حسن عطا کرسکتی ہیں۔
بالوں کو پھولوں یا موتیے کے گجروں سے سجانے سے لے کرزیورات پہننے، ہاتھ سے بنے بالوں کے لوازمات اورروایتی پراندے تک، جب بالوں کی فن کاری کی بات آتی ہے تو جنوب ایشیائی خواتین اپنی ایک الگ ہی شناخت رکھتی ہیں۔ اگرچہ یہ طرزعمل جدید فیشن کوبرقرار رکھنے کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آیا ہے، لیکن اب بھی بالوں کے بہت سے روایتی لوازمات موجود ہیں۔
پراندے آج شاید اتنے مقبول نہ ہوں جتنے پہلے ہوا کرتے تھے لیکن وہ اب بھی پاکستانی روایتی لباس کی جمالیاتی نمائندگی کرتے ہیں۔ خواتین فیشن کے لیے ان لمبے ریشم یا روئی کے ٹکڑوں کو پہنتی تھیں تاکہ ان کی چمک دارتاروں کوحجم اورلمبائی فراہم کی جاسکے اور بالوں کی چوٹٰ میں فنکارانہ انداز میں شامل کیا جاسکے۔ یہ ہاتھ سے بنے ہوئے پراندے مختلف رنگوں اورڈیزائن میں دستیاب ہیں۔ 90ء کی دہائی کے وسط اورآخر میں نوجوان لڑکیاں اسٹائل کے طورپراپنے بالوں میں مختلف رنگ کے پراندے پہنتی تھیں۔ پاکستان اورہندوستان کے بہت سے دیہی علاقوں میں خواتین اب بھی بالوں کے یہ کلاسک لوازمات پہنتی ہیں، خاص طور پر دلہنیں شادی کے دن اپنے لباس سے ملتا جلتا پراندا پہننے کوترجیح دیتی ہیں۔
پراندا صرف مخصوص لباس کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے جن میں زیادہ ترروایتی مشرقی لباس شامل ہیں اور وہ نئی نسل میں زیادہ مقبول نہیں ہیں۔ بہت سے مقامی فیشن ڈیزائنرزنے پرانے فیشن کی دلکشی واپس لانے کے لیے اپنے طرزکے پراندے متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ جس سے بالوں کے ان خوبصورت لوازمات کے مستقبل کے حوالے سے ایک امید پیدا ہوگئی ہے۔