نقشہ نویسی کی تاریخ

ابتدا ہی سے انسان دنیا کو دریافت کرنے کی جستجو رکھتا تھا۔وہ دوسرے علاقوں اور جگہوں کے بارے میں جاننا چاہتا تھا، ان کی ثقافت، رہن سہن سے آگاہ ہونا چاہتا تھااور ایسے ماحول میں دلچسپی رکھتا تھا جو ان کے ارد گرد موجود ماحول سے مختلف نظر آتا ہو۔دنیا کے مختلف مقامات کوتلاش کرنے اور دیکھنے کا تجسس انسان میں نقشہ نویسی جیسی قابلیت پیدا کرنے کا باعث بنا۔نقشہ نویسی کی تاریخ ہزاروں صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے۔یہ ایک قدیم علم ہے جسے تحریری شکل میں رابطہ کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ نقشہ نویسی کی قدیم معلوم تاریخ 15000 سال پرانی ہے۔  اس وقت فرانس کے ایک چھوٹے سے گاؤں لاسکو کا نقشہ دنیا کے قدیم ترین نقشوں میں شمار ہوتا ہے۔ آرکیالوجسٹ نے اس گاؤں کے اطراف میں موجود غاروں کی دیواروں پر کنندہ،مختلف اطراف کے نقشے دریافت کیے۔ انہوں دیواروں کا مشاہدہ کیا جن پر ایسی تصاویر بنائی گئی تھیں جس سے یہ اندازہ لگاٰ جا سکتا تھا کہ ان کے ذریعے شکار اور شکار گاہوں کے راستوں کا تعین کیا گیا ہے۔ ان کے روزمرہ کے معمولات کو تصاویر اور نقشوں کی مدد سے واضح کیا گیا تھانیز ان نقشوں پر جانوروں اور انسانوں کی ہجرت کے راستوں کا بھی تعین کیا گیا تھا۔
 ترکی میں ملنے والی 6200 قبل مسیح پرانی دیواروں پر بنائی گئی تصاویر کو اولین نقشوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان نقشوں میں قصبہ کے گھروں اور گلیوں کو دکھایا گیا تھا اور اطراف میں موجود آتش فشاں پہاڑ کو واضح کیا گیا تھا۔عراق میں 25 ویں صدی قبل مسیح میں بنی ہوئی پتھر کی ایسی تختیاں ملیں جن پر دو پہاڑیوں کے درمیان موجود وادی کو دکھایا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ نقشہ نویسی کے فن میں نکھار آتا گیا جسے اہل یونان نے بام عروج پر پہنچایا۔ پانچ سو قبل مسیح کا یونان علم کا گہوارہ بن چکا تھا۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ زمین فلیٹ ہے جبکہ یونانی فلسفی فیثاغورث اور ارسطو یقین رکھتے تھے کہ زمین گول ہے اور اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے نقشے مرتب کیے۔
اہل یونان ماہر کشتی ران اور کھوجی تھے جنہوں نے خشکی اور سمندر میں کئی نئی جگہیں دریافت کیں اور ان کے نقشے بنائے۔ یونانیوں کو درست ریاضیاتی کے اصولوں پر نقشے بنانے کا عبور حاصل تھا۔ معلوم دنیا کا پہلا نقشہ بنانے کا سہرا اینیکسی مینڈر کے سر ہے، اسی وجہ سے اسے پہلا باقاعدہ نقشہ نویس گردانا جاتا ہے۔اس کا تعلق بھی یونان سے تھا۔ یونانیوں کے بعد اہلِ روم نقشہ سازی کے امام بنے اور دوسری صدی عیسوی میں بطلیموس نے کارٹوگرافی پر اپنا مقالہ جیوگرافیا کے نام سے لکھا جس میں نے اس نے نقشہ سازی کے جدید اصول وضع کیے۔ یہ پرانے نقشے جوزمانہ 2300 قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں محفوظ ہیں اور قدیم انسانی تاریخ کا اہم باب ہیں۔ایک عرب مسلم جغرافیہ دان، سیاح اورعالم ابو عبداللہ محمد بن محمدبن عبداللہ ابن ادریس کو بھی دنیا کے ابتدائی نقشہ نویسوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ قطب نما کی ایجاد چینیوں نے کی جس سے سمت کی تعین میں بہت سہولت میسر آگئی۔
بابلیوں کے بنائے گئے نقشے اماگو منڈی کو دنیا کے پہلے نقشے کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس میں دریائے فرات کو بابلن سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس میں آرمینیا کے گرد سمندر کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔اس کے علاوہ دنیا کے زیادہ حصہ کا احاطہ کرنے والا نسبتا بہتر نقشہ پانچ سے چھ صدی قبل مسیح میں ہیکٹس نے بنایا۔ اس میں اس نے دنیا کو تین حصوں یورپ، ایشیاء اور لیبیا میں تقسیم کر کے دکھایا ہے۔ اس نقشے میں دنیا ایک پلیٹ کی مانند دبالکل گول دکھائی گئی ہے جس کے کناروں پر سمندر ہے۔
غاروں کی دیواروں، اینٹ، پتھر، لکڑیوں کی تختیوں سے ہوتے ہوئے آج ہم جدید جی پی ایس سسٹم اپنے کیسوں میں لیے گھوم رہے ہیں اورستاروں اور اندازوں سے سمتوں کا تعین کرنے والا انسان آج زمین کے ایک ایک انچ کو اپنے چھے انچ کی موبائل فون کی اسکرین پر دیکھ سکتا ہے۔دنیاکے چپے چپے کی نشاندہی ہو چکی ہے اور ہر مقام کو طول بلد اور عرض بلد میں تقسیم کیا جا چکاہے۔اس سے دنیا کے کسی بھی مطلوبہ مقام کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ بھٹکنے کی گنجائش ناہونے کے برابر ہے۔جدید جی پی ایس نظام سیٹلائیٹ کی مدد سے کام کر تا ہے جس کا آغاز امریکہ میں 1973ء میں ہوا تھا اور آج ہر ایک چیز بالواسطہ و بلا واسطہ جی پی ایس سے جڑ چکی ہے۔اس میں صرف نقشے ہی شامل نہیں ہیں بلکہ دور جدید کی ایسی بے شمار چیزیں منسلک ہیں جو اب روزمرہ زندگی کا معمول بن چکی ہیں۔ اس سسٹم کے ناکارہ ہونے کا مطلب سفر میں دشواری، سڑکوں پر ٹریفک جام، ٹرین کو ٹریک کرنے والی ایپس کا بیکار ہو جاناہو سکتے ہیں۔ آن لائن ٹیکسی سروس سب سیزیادہ متاثرہونے والی چیزوں میں سے ہوگی۔ ایمسرجنسی سروسز حادثہ والی جگہ کا تعین نہیں کر سکیں گی۔ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کا نظام شدید متاثر ہوگا۔عصر حاضر میں ہمارے پاس سیٹلائٹ کی مدد سے بنائے گئے دنیا کے بہترین نقشے موجود ہیں جن میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن نقشہ سازی کے لیے وضع کیے گئے صدیوں پرانے بعض قوانین اور ریاضی کے اصول آج بھی مستعمل ہیں۔


 

Daily Program

Livesteam thumbnail