نسالو کا تہوار
نَسالَو (nasaalo) گلگت بلتستان، جموں کشمیر، لداخ اور آزاد کشمیر کے شینا بولی جانے والے علاقوں میں یہ ایک ہزارسالہ قدیم رسم ہے۔ جس کو نَسالَو (nasaalo) کہا جاتا ہے۔نَسالَو کی یہ رسم زمانہ قدیم میں اکیس دسمبر سے شروع ہوتی تھی جو نئے شینا یعنی سال ک کے آغاز ا کی خوشی میں منائی جاتی تھی، لیکن اب یہ رسم پانچ دسمبر سے اکیس دسمبرتک جاری رہتی ہے۔اس دوران یہاں کے لوگ اپنی اسطاعت کے مطابق جانوروں کوذبح کرتے ہیں اوراس گوشت کو سٹور میں چھت سے ٹانک کر رکھا جاتا ہے تاکہ گوشت سوکھ جائے۔ جس جگہ نَسالو کے گوشت کو ٹانکا جاتا ہے اسے شینا میں ”ڈَں گو“ کہا جاتا ہے۔ اور ضرورت کے تحت ”ڈں گو“سے گوشت کو گھر کے افراد اور مہمانوں کے لیے پکایا جاتا ہے۔
پہلے وقتوں میں جب نسالو یعنی جس گھر میں جانور ذبح کیا جاتا تھا وہاں محلے کے تمام مکینوں کی دعوت ہوتی تھی اور یہ سلسلہ اکیس دسمبر تک جاری رہتا تھا کبھی ایک گھر میں دعوت تو کبھی دوسرے گھر میں۔آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی ابھرا ہوگا کہ یہ رسم پانچ دسمبر سے اکیس دسمبر تک ہی کیوں ادا کی جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ پانچ دسمبر سے اکیس دسمبر تک ذبح کیے جانے والے جانوروں کا گوشت سڑ نہیں جاتا بلکہ فریز ہوکے کافی دیر استعمال کے قابل رہتا ہے۔اور جس گھر میں نسالو کا گوشت جتنی دیر رہتا اس کی اتنی ہی تعریف ہوتی تھی۔
پرانے وقتوں میں زیادہ تر لوگ یاک جس کو شینا میں بپو یعنی یاک کہا جاتا ہے۔ نسالو پر ذبح کرتے تھے۔ بپو (یاک) ایک ممالیہ جانور ہے جو گائے اوربیل سے ملتا جلتا ہے لیکن جسامت میں بڑا اور مضبوط ہوتا ہے۔یہ جانور ہمالیہ کے علاقوں کے ساتھ کشمیر، گلگت، بلتستان،چترال،چین،بھارت اور نیپال میں پایا جاتا ہے۔گلگت میں ضلع غذر بپو (bépo) (یاک) کی پیدوار کے لیے مشہور ہے گلگت مارکیٹ میں نسالو اور دیگر ضروریات کے لیے بپو (یاک) ضلع غذرسے ہی سپلائی ہوتے ہیں۔ اس کے سینگ کالے ہوتے ہیں۔
ضلع چترال کے وادی بروغل میں اسے دودھ، گوشت اور مال برداری کے لیے پالا جاتا ہے۔ چترال کا روایتی کھیل یاک پولو بھی اس جانور کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔۔اب یاک کو قربانی کے لیے کراچی اوراسلام آباد مارکیٹ میں بھی فروخت کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ گلگت میں نسالو کرنے کی رسم اب دم توڑرہی ہے۔ پہلے کے مقابلے میں اب بہت کم لوگ نسالو کی طرف توجہ دیتے ہیں لیکن گاؤں میں یہ رسم اب بھی جوش و جذبے سے جاری ہے۔گلگت سے ملحقہ ایک گاؤں جسے شکیوٹ کہا جاتا ہے وہاں تو اس کو باقاعدہ ایک چیلنج کے طور پر لیا جاتا ہے اور ایک دوسرے کے مقابلے میں ایک سے زیادہ جانور نسالو پر ذبح کیے جانے کا رواج ہے اور ایک دوسرے کوزیر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔نسالو کی رسم پہلے وقتوں میں لوگوں کی ضرورت تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ اس وقت یہ علاقے دیگر علاقوں سے کٹے ہوئے تھے۔آمدرفت اور وسائل بہت کم تھے لو گ گرمیوں میں کام کاج کھیتی باڑی کرتے اور لمبے زمستان میں ان کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہوتا تھا اور اس وقت قصائی وغیرہ کا کوئی نظام بھی نہ تھا اس لیے لوگ سردیوں میں جانور ذبح کرتے تھے اور پورے زمستان کے موسم میں نسالو کے گوشت سے لطف اندوز ہوتے تھے اور اپنی کھوئی ہوئی توانائی کو بحال رکھنے کی کوشش کرتے تاکہ تازہ دم رہ کر اگلے موسم بہار میں فصلوں کی کاشت اور محنت کر سکیں۔اب دورجدید کی سہولتوں نے شہر میں اس کی افادیت کم کر دی ہے بلکہ یوں کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ تقریبا”ختم ہو چکی ہے اور اب یاک نسالو کے ساتھ ساتھ قصائی کے لیے بھی گلگت مارکیٹ میں فروخت کیے جاتے ہیں۔لیکن ایک بات طے ہے کہ جو لوگ نسالو کے گو شت کھانے کے عادی ہیں انھیں دوسرا گوشت پسند نہیں آتا وہ اس گوشت میں ایک الگ مزا پاتے ہیں جبکہ ایسا ذائقہ دوسرے گوشت میں نہیں ہوتا۔