موڑھے شاہی وڈیروں کی بیٹھک گاہوں کی زینت
دستکاری کا ہنر کئی صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ ہر دور میں انسان اپنے ہاتھوں سے ایسے کئی فن، نقش ونگار اور منفرد چیزیں بناتے رہے ہیں جو کہ ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی طرح آج بھی دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو کہ دستکاری کے ہنر سے وابستہ ہیں اور بہت سی سادہ چیزوں کو اپنے اس ہنر کی بدولت انتہائی دلکش اور دلفریب بنا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا عش عش کر اٹھتا ہے۔
پاکستان کے منفرد ہنرمند دستکاروں کے مطابق سب سے مشکل کام سجاوٹی اشیاء بنانا ہے، کیونکہ ان سجاوٹی اشیاء میں شیشے کے ٹکڑے اور مختلف رنگوں کے دھاگے کے استعمال میں بہت وقت اور محنت لگتی ہے اور بہت باریکی سے یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ شیشے کے مختلف ڈیزائن کے کٹے ہوئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو بانس کی کانی پر رکھ کر مختلف رنگ برنگے دھاگوں سے لگایا جاتا ہے۔
ان دستکاروں کا کہنا ہے کہ ہمارے باپ دادا کا قول ہے کہ ہنر بادشاہ اور تعلیم وزیر ہے۔ انہوں نے ہمیں ہنر سکھایا، اور اس بات کی تلقین بھی کی کہ ہنر سیکھو گے تو بادشاہ بنو گے اور تعلیم حاصل کروگے تو کسی سرکاری یا نجی محکمے میں غلام ہی رہو گے۔لیکن آج یہ بات اْلٹ ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے سخت محنت اور دیدہ زیب اشیا کی تیاری پر بھی کم اْجرت ملتی ہے۔
پاکستانی ثقافت میں موڑھے کو ہی لے لیجیے۔موڑھے جو شاہی وڈیروں کی بیٹھک گاہوں کی زینت ہوتے ہیں۔ان کی بناوٹ اور سجاوٹ ہی ان لوگوں کی مہارت اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔موڑھا تیار کرنے کے لیے سائز کے لحاظ سے کٹائی کی جاتی ہے اور پھر کاریگر اسے ڈوری سے ایک ایک سرکنڈا جوڑ کر کھڑا کرتے ہیں۔ ایک موڑھا تیار کرنے میں کم از کم چار گھنٹے لگتے ہیں۔جس کے بعد ریکسین یا کپڑا لگانے والے کا کام شروع ہوتا ہے جو ڈیڑھ سو روپے مزدوری لیتا ہے۔
بارشوں کے موسم میں یہاں کام میں تعطل آ جاتا ہے لیکن اس کے علاوہ پورا سال ہر گھر کے کم و بیش تمام افراد یہ اشیا بنانے کے کام میں جتے رہتے ہیں۔ کچھ ’سرکنڈوں‘ (بانس نما پودے) کی چھلائی کرتے ہیں، کچھ مسجدوں کی صفیں بناتے ہیں تو کوئی چیکیں (برآمدوں اور دالانوں کے باہر لگایا جانے والا پردہ) بناتے ہیں۔ یہ چیزیں تیار کرکے وہ دکانداروں کو تھوک کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔
وقت بدلنے کے ساتھ موڑھوں کی جگہ پلاسٹک کی کرسیوں نے لے لی ہے جبکہ صفوں کی جگہ کارپٹ اور چٹائیاں آگئی ہیں۔ وسائل اور علم کی کمی کے باعث یہ لوگ اپنے روائتی کام کو زیادہ جدت بھی نہیں دے سکے۔ اس لیے مستقبل قریب میں یہ کام معدوم ہوتا نظر آتا ہے۔