موچی دروازہ

موچی دروازہ پاکستان کے شہر لاہور کا اہم دروازہ ہے۔ شہر قدیم کا موچی دروازہ جنوب کی جانب واقع ہے۔ اس کے دائیں جانب اکبری دروازہ اور بائیں جانب شاہ عالمی دروازہ ہے۔ اس دروازے کی تعمیر بھی اکبر کے دور میں ہوئی۔موچی دروازے کا قدیم نام موتی دروازہ تھا۔ اس نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اکبری عہد میں موتی رام جمعدار جو اکبر کا ملازم تھا، تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر مامور رہا۔ موتی رام بہت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھا۔ اپنے حسن اخلاق کے باعث وہ ہر خاص و عام میں مقبول تھا۔ اس کی زندگی میں جب بیرونی حملہ آوروں نے لاہور کا رخ کیا تو اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے شہر کی حفاظت کی اور اپنی حکمت عملی اور ذہانت کی بدولت حملہ آوروں کو دروازے میں داخل نہ ہونے دیا۔ اسی کے نام کی نسبت سے یہ دروازہ موتی دروازہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔
 کنہیا لال موچی دروازے کے بارے میں تاریخِ لاہور میں بیان کرتے ہیں کہ یہ دورازہ موتی رام جمعدار ملازم اکبری کے نام سے موسوم ہے جو تمام عمر اس دروازے کی حفاظت پر تعینات رہا تھا۔ مدت العمر کی ملازمت کے سبب سے اس دروازے نے بھی موتی کے ساتھ پوری نسبت پیدا کر لی اور ہمیشہ کے لیے موتی بن گیا۔ سکھی عہد میں موتی کے نام سے بدل کر موچی مشہور ہوا۔ اب بھی موچی دروازہ مشہور ہے۔ اس دروازے کے مشرقی دالان میں ایک قبر چھوٹی سی زمانہ سلف کی پختہ بنی ہوئی موجود ہے۔ لوگ مشہور کرتے ہیں کہ یہاں کسی شہید کا سر مدفون ہے۔جبکہ بعض مورخین کی رائے ہے کہ اس دروازے کو سکھ عہد میں مورچی دروازے کا نام دیا گیا تھا۔ جس کی بنیادی وجہ اس اندرون موچی دروازے میں مورچیوں کا قیام بتائی جاتی ہے۔ اوائل مغل عہد میں یہاں مغل فوج کے پیادے قیام پزیر تھے اور اسی نسبت سے اس علاقے کے مختلف محلوں اور گلیوں کی تقسیم کی گئی جن میں محلہ تیرا گراں، محلہ کماں گراں، محلہ لٹھ ماراں، محلہ چابک سواراں، محلہ بندوق سازاں اور حماماں والی گلی قابل ذکر ہیں۔  آج اتنی صدیاں گذر جانے کے بعد بھی یہ دروازہ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور ملکی سیاسی تاریخ کا اہم مرکز تصور کیا جاتا ہے۔ یہ دروازہ سیاسی حوالے سے ملکی تاریخ کا اہم باب بن گیا ہے اس لیے جمہوری ادوار میں سیاست دانوں تحریک پاکستان سے لے کر موجودہ سیاسی منظر نامے تک کا اہم حصہ رہا ہے۔
اس تاریخی میدان میں برصغیر پاک ہند کے جن نامور سیاست دانوں اور رہنماؤں نے خطاب کیا ان میں علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو، خان عبد الغفار خان، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو،نواز شریف، شہباز شریف، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ اور پروفیسر حافظ محمد سعید سمیت تمام اہم سیاست دان شامل ہیں۔ 80ء کی دہائی تک کسی بھی سیاست دان کی عوامی مقبولیت کا اندازہ موچی باغ میں عوامی مجمع کو دیکھ کر لگایا جاتا تھا۔
انگریز دور حکومت میں جب فصیل شہر کی بلندی کم کرکے چند فٹ کی دیوار بنا دی گئی تو اس دروازے کے دونوں برجوں کو گرا کر اس کی اینٹیں فروخت کر دی گئیں۔ قرین قیاس تھا کہ انگریزی عہد میں اس دروازے کی بھی تعمیر نو ہوگی مگر ایسا نہ ہو سکا۔ موچی دروازے کی از سر نو تعمیر نہیں ہو سکی اس لیے آج موچی دروازے کی عمارت کے آثار موجود نہیں ہیں، نہ اس دروازے کی عمارت کے بارے میں پرانی کتابوں میں حوالہ جات ملتے ہیں۔ لہذا اس کے فن تعمیر اور جمالیات کے بارے میں مورخ کسی قسم کی رائے کے اظہار سے قاصر ہیں۔ قیاس ہے کہ اس دروازے کی عمارت بھی لاہور کے بقیہ قدیم دروازوں کے فن تعمیر سے مماثلت رکھتا ہوگا۔ آج موچی دروازہ کے بائیں ہاتھ پر تھانہ موچی گیٹ کی نو تعمیر کثیر منزلہ عمارت موجود ہے اور بائیں جانب تھانہ رنگ محل کی عمارت ہے۔ دروازے کے بالکل ساتھ پیر مرادیہ کی قبر اور سبیل ہے۔ قبر پر دو قدیمی گھنے درختوں کا سایہ کیا ہوا ہے۔ تھانے کی عمارت سے چند قدم آگے بائیں جانب قدیم لال حویلی کی عمارت ہے۔
موچی دروازے کا علاقہ پتنگ سازی، خشک میوہ جات، مٹھائیوں اور آتشباری کے سامان کا مرکز رہا ہے۔ بسنت پر پابندی عائد ہونے کے بعد اب اس علاقے میں پتنگ سازی کا کاروبار ختم ہو چکا ہے۔ جبکہ آتشبازی کے سامان کی چند ایک دوکانیں باقی ہیں۔ البتہ موچی دروازے کا بازار اب بھی بہت بارونق ہے۔ مٹھائیوں اور کھانے پینے کے حوالے سے یہ علاقہ اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ موچی دروازے کی وجہ شہرت مسجد محمد صالح کمبوہ بھی ہے۔ جونہی موچی دروازے کے اندر داخل ہوں تو چند قدم چلنے کے بعد بالکل سامنے تین گنبدوں والی یہ مسجد آنے والوں کو توجہ اپنی جانب مبذول کرتی ہے۔ یہ مسجد سڑک سے ایک منزل بلندی پر تعمیر کی گئی تھی۔ اس قدیم مسجد کا شمار اپنے نقش و نگار اور خوبصورتی کے باعث مغلیہ دور کی اہم عمارات میں کیا جاتا ہے۔ 

Daily Program

Livesteam thumbnail