غگ:عورت دشمن رسم
غگ رسم ایک قبائلی رسم ہے۔غگ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب آواز لگانا یا اعلان کرنا ہے۔ یہ رسم بنیادی طور پر جنوبی وزیرستان سے شروع ہوئی اور پھر دیگر قبائلی اضلاع اور صوبے کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی۔غگ کے تحت اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے شادی کا اعلان کرتا ہے تو وہ جا کر اس لڑکی کے گھر کے سامنے 4 فائر کرتا ہے۔ ان فائرز کے بعد وہ لڑکی سے شادی کا دعویدار بن جاتا ہے اور پھر کوئی اور مرداس لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا۔اس رسم میں لڑکی، اس کے والدین یا رشتہ داورں کی رضامندی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ غگ ہر لڑکی پہ نہیں ہو سکتا صرف چچا زاد پہ ہو سکتا ہے۔ ماموں زاد پہ بھی نہیں اس کے لیے بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں اگر وہ پوری ہوں تو ہو سکتا ہے۔اس فرسودہ روایت کا مقصد لڑکی سے شادی کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس روایت کے ذریعے خاتون کے خاندان کو تنگ کرنا یا اپنی شرائط پر ان سے شادی معاملات طے کرنا ہوتا ہے۔
یہ رسم قبائلی علاقوں خاص طور پشتون علاقوں میں پائی جاتی تھی اور اب بھی کسی حد تک موجود ہے۔ اس کے تحت لڑکے کے گھر والے پہلے تو رشتہ مانگنے کے لیے لوگ بھیجتے ہیں۔ لڑکی والوں کی جانب سے انکار کی صورت میں لڑکے والے پھر غگ یعنی پکار یا اعلان کرتے ہیں جس میں لڑکی کے گھر والوں کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔غگ دراصل سیدھی دھمکی ہوتی ہے کہ علاقے کے لوگ اس لڑکی کا رشتہ نا بھیجیں اور اگر کوئی بھیجنے کی جرات کرتے ہیں تو پھر دشمنیاں شروع ہو جاتی ہیں۔
اس رسم کی وجہ سے لڑکی اور اس کے گھر والے بری طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس لڑکی کی اسی لڑکے سے شادی ہو جس نے غگ کی رسم کے تحت اس کے گھر کے باہر فائرنگ کی تھی۔ اکثر وہ لڑکی ہمیشہ کے لیے گھر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا رشتہ کہیں بھی نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ لوگ اس لڑکی کے رشتے سے گریز کرتے ہیں۔
افسوس کے آج بھی کہیں نہ کہیں غگ کی رسم پر عمل ہو رہے۔ لیکن سول سوسائٹی اور لوگوں میں شعور پیدا ہونے کے بعد ان واقعات میں کافی کمی واقع ہونا شروع ہوئی ہے۔
2021 میں جنوبی وزیرستان میں غگ کے 6 واقعات پیش آئے جن میں لڑکوں نے غگ کے ذریعے شادی کے اعلانات کیے۔ غگ رسم میں کسی نا کسی حد تک کمی تو آئی ہے مگر بد قسمتی سے غگ رسم رپورٹ نہیں ہوتی۔ زیادہ ترخواتین ڈر اور روایات کے مارے منہ بند کر کہ خون کے آنسو پی کر زندگی بسر کر رہی ہوتی ہیں۔
غگ کے خاتمے کے لیے اگرچہ مختلف ادوار میں آواز اٹھائی گئی ہے لیکن سال 2013 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس فرسودہ روایت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرتے ہوئے قانون سازی کی اور پھر صوبائی اسمبلی سے قانون منظور کروایا تھا کہ غگ ایکٹ کی شق نمبر 7 میں یہ عمل ایک ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ جرم ہے۔ اس ایکٹ کے شق نمبر 4 کے تحت جرم ثابت ہونے پر اس کی سزا زیادہ سے زیادہ 7 سال اور کم سے کم 3 سال قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔
غگ ایک قابل سزا جرم اور عورت مخالف بدترین رسم ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں آگاہی مہم شروع کرنی چاہیے۔ خواتین کو بھی اس رسم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے تاکہ کوئی بھی عورت کو کمزور سمجھ کر اس پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کرنے کی جرات نہ کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور متعلقہ محکموں کو بھی معلومات ہونی چاہیے کہ غگ اب ایک قابل گرفت جرم ہے تاکہ وہ اس کا ارتکاب کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لا سکیں۔