سُن چرخے دی مِٹھی مِٹھی گھوک ماہی مینوں یاد آوندا

a cotton gin or spinning wheel.

کہا جاتا ہے کہ چرخہ 1234میں بغداد میں پہلے پہل استعمال ہوا،بابل و نینوا کی تہذیب بہت پرانی ہے،سو چرخہ سب سے پہلے عراق میں ایجاد ہوا۔ 1270میں چین میں استعمال ہوتا رہا اور یورپ میں 1280میں اس کا استعمال شروع ہوا۔وطن عزیز میں اس کی ابتدا ضلع چترال میں آباد ”کھو“قبیلے سے ہوئی، یہ چرخہ وہاں سے پنجاب میں منتقل ہوا اور گھر گھر پھیل گیا۔ 
 یہ دراصل ایک دیسی ساختہ لکڑی کی بنی ہوئی مشین ہوتی تھی،جو کبڑا بننے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اس کو بنانے کے لیے لکڑی کے مثلث نما ٹکڑے جوڑ کر چرخے کے بڑے سے پہیے کو بنایا جاتا تھا،لکڑی کے فریم پر سوراخ نکالے جاتے اور دو ”مُنیوں“کو ”تیشے“سے ٹھونکا جاتا، پھر چرخے کے پہیے کو ان دو ”مُنیوں“میں لوہے کی لٹھ سے منسلک کیا جاتا،جوچرخے کے بڑے پہیے کو گھمانے کا سبب بنتی ہے۔اس کے بعدپہیے سے کچھ ہی فاصلے پر ”برمے“سے سوراخ نکال کر دو اور ”مُنیاں“گاڑھی جاتیں،جن کے درمیان تیز دھار لوہے کا ”تکلا“ڈالا جاتا، یہ ”تکلا“چرخے کے پہیے کے ساتھ ایک دھاگے سے گھومتا،چرخے کے پہیے کو گھمانے کیلئے اس کے ساتھ لکڑی کا ”ہینڈل“لگا دیا جاتا تھا جس کو چرخہ کاتنے والی عورتیں اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے تیزی سے گھماتی تھیں۔بنولے کے بغیر روئی جو دونوں ہتھیلیوں کے درمیان میں رکھ کر ”پونی“کی شکل میں تیار ہوتیں ”تکلے“کے گرد گھوم گھوم کر کچھے دھاگے ”سوت“کی شکل اختیار کرتیں۔ایک پونی کے ختم ہونے کے بعد بار بار نئی پونی کا ٹانکہ لگایا جاتا اور اس طرح دھاگے کی ایک ”اٹی“تیار ہوتی جو ایک ”کون نما“ہوتی تھی۔اس طرح ڈھیروں اٹیاں جوڑ کرڈھیروں دھاگہ تیار کرکے جولاہے کو دیا جاتا جو اس دھاگے سے کھیس تیار کرتا۔ شالیں بنانے کیلئے اون چرخہ پر کاتی جاتی اور پھر کھڈی پر شال تیار ہوتی۔اسے مقامی زبان میں ”ڈلہ“کہا جاتا تھا یہی نہیں اونٹ کی اون جسے ”ملس“ کہا جاتا ہے،اس کی اون سے بنی شال کمبل سے زیادہ گرم ہوتی۔یہ سارا کمال چرخہ کا تھا جس پر یہ اون کاتی جاتی تھی۔
چرخہ فارسی زبان کے لفظ ”چرخ سے ماخوذ ہے اردو میں ”ہ“کا لاحقہ لگانے سے چرخہ بنا جو اسم مستعمل ہے۔پرانے وقتوں میں والدین اپنی بیٹیوں کے جہیز میں چرخہ ضرور دیا کرتے تھے تب چرخہ لڑکی کے جہیز کی اہم ضرورت ہوا کرتا تھا،دیہی علاقوں کے جو صاحب ثروت افراد ہوتے وہ رنگین اور خوبصورت پایوں والا چرخہ اپنی بیٹی کو دان کرتے۔لڑکی کے سسرال والے بھی گاؤں کی عورتوں کو بہو کے جہیز آنے والا وہ چرخہ ضرور دکھاتے۔ ہم اس ماضی کو کیسے بھول سکتے ہیں کہ گاؤں میں گرمیوں کی دوپہر میں اپنے صحن کے کسی گھنے سایہ دار شجر کی چھاؤں میں جب کوئی عورت چرخہ کاتنے بیٹھتی تو کام کاج سے فارغ عورتیں اس کے پاس بیٹھ جاتیں اور گاؤں کی ہر اچھی بری خبر کے ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے کے دکھ بانٹتیں۔اسی لئے چرخے کو گاؤں کی عورتوں کی بیٹھک اور دکھ سکھ کا ساتھی بھی سمجھا جاتا تھا۔اسی طرح گلی میں بیٹھ کر بھی گاؤں کی عورتیں چرخہ کاتتے ہوئے گنگنایا کرتی تھیں،نوجوان لڑکیاں جب چرخہ لے کر بیٹھی ہوتیں اور سوت کی”اٹی“ اتارتے ہوئے ”تکلے“کی تیز نوک انگلی کے پوٹے میں چھید کرتیں تو بے اختیار ان کے لبوں پر گیت آجاتے۔چرخہ شاعروں کابھی ایک پسندیدہ موضوع رہا،اس پرشاعری کی گئی، گیت لکھے گئے،گانے بنائے گئے جو کافی مشہور ہوئے۔
اب ماحول بدل گیا ہے چرخہ کی جگہ بڑی بڑی انڈسٹری آ گئی ہے اب ہم اس ماحول کو واپس نھیں لا سکتے ہاں البتہ ہم اسے اپنی تحریروں میں زندہ رکھ سکتے ھیں اپنی آنے والی نسل جو شائد اس نام سے بھی نا واقف ہو گی اسے پنجابی زبان اور اس کی ثقافت سے باخبر رکھنے کے لیے ہمیں اپنی آنے والی نسل کو کتب بینی کی ترف راغب کرنا ہو گا

 

Daily Program

Livesteam thumbnail