سوہنی مہینوال

سوہنی مہینوال

مہینوال کا اصل نام عزت بیگ تھا، اس کا تعلق بخارا سے بتایا گیا ہے۔ بخارا کے ایک مالدار ترین کاروباری شخصیت کا بیٹا،عزت بیگ تجارت کی غرض سے گجرات آیا اور کاروبارکی غرض سے وہیں مقیم ہو گیا۔ ایک روز عزت بیگ برتن خریدنے کی غرض سے عبد اللہ کمہار کے گھر پہنچا تو اُس کی نظر وہاں موجود سوہنی اور سوہنی کی نظریں عزت بیگ پر پڑیں تو دونوں پر سکتہ طاری ہو گیا اور دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔اس کے بعد سے عزت بیگ ہر روز برتن خریدنے کے بہانے سوہنی کے گھر جاتا ہے اور نہ صرف ڈھیر سارے برتن وہاں سے خرید کرلے جاتا ہے بلکہ مزید برتنوں کا آرڈر بھی دے آتا۔رفتہ رفتہ عزت بیگ اپنے کاروبار سے لاتعلق ہوتا گیا اور اس کی دنیا صرف سوہنی کی محبت تک محدود ہو گئی۔ کاروبار تباہ ہونے کے بعد عزت بیگ بالکل قلاش ہو گیا، بخارا واپس جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ ایک روز وہ سوہنی کے باپ عبد اللہ کے پاس آیا اور اس سے درخواست کی کہ وہ اُسے اپنے پاس ملازم رکھ لے۔عبد اللہ کمھار کو بھی دیگر کاموں کے لیے ایک مدد گار کی ضرورت تھی، اس نے اُسے اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ عزت بیگ کو مویشی چرانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ملازمت ملنے کے بعد، عزت بیگ سوہنی کے گھر کے قریب ہی رہائش اختیار کرلیتا ہے اور عبد اللہ کے مویشیوں کو چرانے کا کام شروع کردیتا ہے۔ کیونکہ اس علاقے میں چرواہے کو ”مہینوال“ کے نام سے پکارا جاتا تھا، اس لیے عزت بیگ بھی مہنیوال کے نام سے مشہورہوگیا اور لوگ اس کا اصل نام بھولتے گئے۔
عبد اللہ کمھار کی ملازمت ملنے کے بعداس کی سوہنی سے قربت بڑھتی گئی اور ایک وقت ایسا آیاکہ سوہنی اور مہنیوال کے عشق و محبت کی داستان نہ صرف سوہنی کے باپ بلکہ دور دراز کے علاقوں تک جا پہنچی۔ بد نامی کے خوف سے کمھار عبد اللہ نے فوری طور سے سوہنی کا رشتہ اپنے قبیلے کے رسم و رواج کے مطابق اپنے ہی خاندان کے ایک نوجوان سے طے کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں اس کی شادی کردی۔
 سوہنی رخصت ہوکر اپنے شوہر کے ساتھ دریائے چناب کے دوسرے کنارے پر واقع اپنے شوہرکے گھر چلی گئی جبکہ مہینوال اِسی کنارے پر رہ گیا۔ سوہنی نے اپنی محبت کی تسکین اور محبوب سے ملاقات کے لیے ایک منفرد طریقہ ایجادکیا۔ ان کے ملاپ کے راستے میں دریائے چناب کی سرکش موجیں حائل تھیں۔ کیوں کہ وہ کمہارکی بیٹی ہونے کے ناطے مٹی کے ظروف بنانے میں مہارت رکھتی تھی اس لیے اس نے دریا کے دوسرے کنارے تک پہنچنے کے لیے پکی مٹی سے ایک گھڑا تیار کیا۔ اس کے بعدوہ روزانہ رات کی تاریکی میں اپنے محبوب مہنیوال سے ملنے گھڑے کی مدد سے تیر کر دریاکے پار پہنچ جاتی اور وہ دونوں صبح کی روشنی پھیلنے تک ایک دوسرے کی محبت میں کھوئے رہتے۔
دونوں محبوب چھپ چھپ کر ملتے رہے اور کافی عرصہ گذر گیا لیکن یہ بات چھپی نہ رہ سکی۔ ایک مرتبہ سوہنی کی نند کوپتہ چل گیا کہ سوہنی روزانہ رات کو اپنے محبوب سے ملنے دریا کے دوسرے کنارے پر جاتی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ سوہنی جو خود تیرنا نہیں جانتی، مٹی کے مضبوط گھڑے کی مدد سے دریا پار کرتی ہے۔ اس نے اپنی بھاوج کے خلاف ایک خوفناک سازش کی۔ وہ خود بھی کمھار خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور مٹی کے برتن بنانے کے فن سے واقف تھی، اس لیے اس نے انتہائی مہارت کے ساتھ کچی مٹی کا گھڑا اس انداز میں بنایا جس میں سوہنی کے بنائے ہوئے گھڑے میں تھوڑا بھی فرق نظر نہیں آتا تھا۔ ایک روز وہ سوہنی کے بنائے ہوئے پختہ گھڑے کی جگہ کچا گھڑا رکھ دیتی ہے۔ سوہنی جو اس بات سے بے خبر ہوتی ہے، اپنے محبوب کی محبت سے بے قرار ہوکروہی کچی مٹی کا گھڑا اْٹھا کر اس کی مدد سے دریا میں اتر جاتی ہے۔ وہ اس بات سے قطعی بے خبر ہوتی ہے کہ وہ اس گھڑے کی صورت میں اپنی موت کا سامان لے کر جارہی ہے۔ پانی میں اترنے کے بعد کچی مٹی سے بنے گھڑے کی مٹی گھلنے لگتی ہے اور دریا کے عین وسط میں پہنچ کرگھڑا بالکل پگھل جاتا ہے جس کے ساتھ ہی سوہنی بھی ڈوبنے لگتی ہے۔موت کے خوف سے سوہنی بے اختیار مہینوال کو پکارتی ہے۔ مہینوال جو دریا کے دوسرے کنارے پر سوہنی کے آنے کا انتظار کررہا ہوتا ہے۔اس کی چیخیں سن کراسے بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگا دیتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اِسے بھی تیرنا نہیں آتا تھا، اس لیے سوہنی کے ساتھ وہ بھی ڈوب جاتا ہے۔ محبت کرنے والا جوڑا دریا کی گہرائیوں میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔دونوں سچے عاشقوں کی پاکیزہ محبت تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتی ہے۔
مشہور ہے کہ سوہنی اور ماہیوال کے جسد خاکی دریا کے ساتھ بہتے ہوئے سندھ کے علاقہ دریائے چناب پر باندھے گئے حفاظتی بن سے ایک ایکڑ پرے بدر رانجھا کوٹمومن ضلع سرگودھا سے برآمد ہوئے۔ وہیں ان دونوں کا مزار ہے۔مگر ایک اور روایت کے مطابق سوہنی اور مہیوال کا مزار سندھ کے علاقے شہدادپور میں موجود ہے جہاں سے کبھی دریا سندھ پاس سے گزرتا تھا اور سندھ کے شہر شہدادپور میں مائی سوہنی علاقے میں سوہنی کا مزار ہے
 

Daily Program

Livesteam thumbnail