سندھ کا رنی کوٹ قلعہ
آثار قدیمہ کی وجہ سے سندھ دنیا کے لیے باعث کشش بنا ہوا ہے۔ رنی کوٹ بھی سندھ ہی میں واقع ہے۔یہ ایک پراسرار قلعہ سمجھا جاتا ہے، جس کی تعمیر اور کاریگری سے کون واقف نہیں ہے۔
یہ قلعہ سن کے قریب جامشورو ضلع میں واقع ہے۔ مگر آج بھی اس قلعے کے حوالے سے کئی سوالات موجود ہیں جن کے جوابات درکار ہیں۔ جیسے اس قلعے کا نام کیسے پڑا، اس کا پس منظر کیا ہے۔ قدیم زمانے میں قلعے اس لیے تعمیر کیے جاتے تھے کہ حکمران اپنے اقتدار اور اپنے علاقے کی حفاظت کرسکیں۔ مگر پھر بھی دشمن کی افواج ان قلعوں کو فتح کرتی تھیں۔ آج بھی سندھ میں کئی ایسے قلعے دیکھے جا سکتے ہیں مگر اب دن بدن ان کی حالت خستہ ہوتی جا رہی ہے۔
رنی کوٹ کے نام کے حوالے سے بھی کئی روایتیں مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رنی نام کی اصلیت اور بنیاد کو سندھی زبان میں تلاش کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک لفظ رنی ہی نہیں بلکہ دیگر بھی ایسے کئی الفاظ ہیں، جو ایک ہی بنیاد میں سے نکلے ہیں۔ جن کی معنی، تعبیر اور مفہوم ایک ہی ہے۔ رنی کا سندھی میں ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پانی کا ایک ایسا بہاؤ جوکہ انسانی ہاتھوں سے نہ بنایا گیا ہو، بلکہ فطری ہو۔
رنی کوٹ قلعے کے چار اہم ترین دروازے ہیں۔ جن میں (1) سن یا مشرقی دروازہ (2) آمری یا شمال مشرق دروازہ (3) شاہ پیر دورازہ (4) مغربی یا بالائی دروازہ (موئن گیٹ)
سن دروازہ: شاہی دروازہ یا سن دروازہ نظر سے اس طرح اوجھل رکھا گیا ہے کہ ایک گول ستون کی بائیں جانب سے گولائی سے گھوم کر جانے کے بعد وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ جب تک اس کا کسی کو پتہ نہیں ہے تب تک اس کو تلاش کرنا دشوار ہے۔ اس دروازے کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک راستہ بھی تھا اور ایک اوپر اٹھنے والا پل بھی۔ اس دروازے کی دائیں جانب ایک چشمہ بھی ہیجس کے اوپر لکڑیوں کی تختیوں سے بنا ہوا ایک پل بھی تھا، اس پل کو پار کرکے قلعے کی دوسری جانب جانا پڑتا تھا۔
شاہ پیر دروازہ: جنوبی دروازہ یا شاہ پیر دروازہ آمری دروازے سے نیچے ہے۔
موئن دروازہ: مشرقی دروازہ بالائی دروازہ ہیجوقلعے کے اوپر والے حصے میں ہے۔
آمری دروازہ: یہ آمری شہر کے سامنے اور قلعے کے شمال مشرق میں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رنی کوٹ کا قدیم نام موئن کوٹ تھا، جہاں دیوی کی عبادت گاہ تھی اور وہاں یاتری اور پجاری آتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ ہنگلاج کے آستان کی ایک کڑی ہو جہاں تمام اطراف سے قافلے آکر جمع ہوتے ہوں۔ پھر ایک بڑے قافلے کی شکل میں سفر کرتے ہوں۔ قدیم نقشوں میں اسے موئن کوٹ کہا گیا ہے جورنی کوٹ کے مغرب میں قائم بھی ہے۔ قلعے کے اندر داخل ہونے سے قبل والے حصے کو نئن موئن کہا جاتا ہے۔
یہ قلعہ آپ ایک دن میں نہیں گھوم سکتے کیونکہ اس کے ان گنت برج پہاڑی سلسلے کی مختلف چٹانوں پر بنائے گئے ہیں جن پر پہنچنا بہت ہی مشکل ہے۔
شیر گڑھ والے رستے کے بعد پیدل چل کر موئن گیٹ تک پہنچ سکتے ہیں جہاں میٹھے پانی والے چشمے ہیں اور وہاں پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کی آواز کو خاموشی میں بخوبی سنا جاسکتا ہے۔ موئن دروازہ اس قلعے کا اہم ترین راستہ ہے۔
یہاں چند برج مربع شکل کے بھی ہیں جن پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں ہیں۔ جہاں کھڑے ہو کر رنی کوٹ اور آس پاس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔مگر آج ان برجوں کی جانب جانے والی سیڑھیاں ٹوٹ گئی ہیں جبکہ چند برجوں کی مرمت بھی کی گئی ہے۔
اس قلعے کا مرمتی کام تالپور دور میں ہوا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ قلعہ ساسانیوں نے تعمیر کروایا تھا۔ کچھ عرصہ قبل محکمہ ثقافت اور آثار قدیمہ سندھ نے قلعے کا مرمتی کام کروایا تھا مگر آج بھی اس قلعے کو مزید توجہ کی ضرورت ہے۔
موئن گیٹ کی جانب جانے والے راستے میں کتنے ہی ایسے پہاڑ ہیں جو آپ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں جبکہ اسی راستے کے ساتھ ہی پتھروں کی دیواریں بھی ہیں، شاید اس زمانے میں اس قلعے کو بہتر بنانے کے لیے ایسا کیا گیا ہو۔
آج بھی رنی کوٹ اپنی شان سے کھڑا ہے جو دنیا کے لیے کسی حیرت کدے سے کم نہیں ہے مگر اس ورثے کو سنبھالنا اوراس کی بہتری کے لیے اقدامات کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔