توڑی بنگلہ

 توڑی بنگلہ
توڑی بنگلہ

سندھ میں 2010 کے سیلاب کی آمد کے بعد توڑی بند نے پوری دنیا میں شہرت حاصل کی مگر اس سے پہلے یہاں کی وجہ شہرت توڑی مانیٹرنگ بنگلہ تھا، جو برطانوی دورِ حکومت کے دوران 1911 میں تعمیر کیا گیا۔ایریگیشن حکام کے دفاتر اور رہائش پر مشتمل یہ دو منزلہ بنگلہ اپنے وقت کی ایک شاندار عمارت ہے۔ اس بنگلے میں تمام تر جدید سہولیات موجود تھیں۔ مگر سیلاب اس بنگلے کی تاریخی حیثیت کو بھی بہا کر لے گیا۔

عمارت کو گرم رکھنے کے لیے آتش دان بنائے گئے جبکہ حبس کے موسم میں ہوا حاصل کرنے کے لیے چھت پر لوہے کے فریم لگے ہوئے ہیں۔ ان لوہے کے فریم کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں لکڑی پر چادر ڈال کر رسے کی مدد سے حرکت دی جاتی تھی، جس سے ہوا ملتی تھی۔

بنگلے کی دوسری منزل پر باتھ ٹب آج بھی خستہ حال میں موجود ہے جبکہ باہر بنا ہوا سوئمنگ پول زمین میں دھنس چکا ہے۔ اس بنگلے کے آس پاس باغات ہوتے تھے جن کو رہٹ کی مدد سے پانی فراہم کیا جاتا تھا جو ایک اونٹ کی مدد سے چلتا تھا۔یہ بنگلہ دریا سے کوئی دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ موجودہ دور میں یہاں تک آنے کے لیے سڑک موجود ہے جو سیلاب کے باعث بْری طرح متاثر ہوئی ہے، ماضی میں یہاں کچی سڑک آتی تھی اور یہ ایک دشوار راستہ ہوتا تھا۔

مغربی اور مشرقی فن ِتعمیر کی مثال اس بنگلے میں کچھ قدیم کتابیں بھی موجود تھیں۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ آثاچہ بھی سیلاب کی نظر ہو گیا۔بنگلے کے صحن میں زمین پر دریائے سندھ کا نقشہ کھدا ہوا تھا، جس کی ملازمین مرمت کرتے رہتے تھے مگر سیلاب کے نتیجے میں یہ مٹی میں دفن ہوگیا ہے۔

اس بنگلے سے تقریباً پچیس لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جو اکثر آس پاس کے گاؤں کے رہائشی ہیں۔چند سال قبل شب توڑی کے مقام پر دریائے سندھ کو شگاف پڑا تھا جس کے پانی کے باعث لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔ وہاں کے ملازموں کا کہنا تھا کہ یہ تیسری بار تھا کہ توڑی بنگلہ ڈوبا ہے۔  انہوں نے مزید کہا کہ انگریزوں نے اس کی سو سال کی گارنٹی دی تھی جو ختم ہوگئی ہے۔

سیلاب نے اس بنگلے اور اس سے ملحقہ عمارت کو شدید متاثر کیا ہے جس کے بعد اس کی دیواروں کو پلاسٹر کیا گیا ہے۔ لکڑی کی دیواروں اور دروازوں کی جگہ اب ایلیومینیم کے دورازے لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن ابھی بھی اس تاریخی بنگلے کی خستہ حالت حکامِ اعلیٰ کی توجہ کی منتظر ہے۔

 

Daily Program

Livesteam thumbnail