بھانڈَے قلعی کرالو اور برتن نوے کرا لو
ایک دور تھا جب بھانڈَے قلعی کرالو اور برتن نوے کرا لو کی صدائیں گلی محلوں میں گونجا کرتی تھیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ وہ آواز اور قلعی گر نئے زمانے کی بھیڑ میں کہیں گم ہوگئی۔ایسے قلعی گر کوئلے سلگاتے، مختلف دھاتوں کا پاوڈر بنا کر انہیں برتنوں پر لگاتے اور برتن کو آگ پر جلاکر اسے پانی میں ڈال کر ٹھنڈا کرتے جس کے بعد برسوں پرانے برتنوں کو بھی گویا ایک نئی زندگی مل جایا کرتی۔ماضی کا حصہ بننے والا یہ ہنر اور اس سے وابستہ لوگ آج بھی اپنی مخصوص صداؤں کی صورت میں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔
یہ کام بہت محنت طلب ہے لیکن اس کا معاوضہ کم ہے اس لیے اب قلعی گروں کے بچے بھی ا س ہنر کو نہیں سیکھنا چاہتے۔صرف وہی لوگ یہ کام کر سکتے ہیں جنہوں نے اپنے آبا و اجداد سے یہ ہنر سیکھا ہے ورنہ دیگر افراد ایسیڈ اور دہکتی بھٹی کے ساتھ کام کرنے سے ڈرتے ہیں۔
تانبے کے برتنوں کا کاروبار کرنے والے افراد کہتے ہیں کہ لوگ پرانے برتن انہیں بیچ جاتے ہیں جن کو مرمت اور قلعی کروا کے نیا جیسا بنا دیا جاتا ہے۔تانبے کے برتنوں کا استعمال کم ہوا تو اس کے ساتھ یہ ہنر بھی دم توڑ گیا مگر چند ایک افراد ہی اپنے بڑے بزرگوں سے سیکھے گئے اس فن کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
قلعی گرکمرے میں بھٹی کی لو سے پائی جانے والی تپتی گرمی کی شدت سے بے نیاز روئی کے ایک بڑے سے ٹکڑے کو نوساور (امونیم کلورائڈ) میں بھگو کر دیگ کے اندر پورے انہماک سے گھستے جاتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے چند منٹوں کے اندر وہ میلا کچیلا سیاہی مائل برتن بالکل ایک نئے برتن کی مانند چمکنے لگتا ہے۔بنیادی طور پر تانبے اور پیتل کے برتنوں، بالخصوص پرانے اور میلے برتنوں کی قلعی کی جاتی ہے جس سے وہ چھکا چھک چمکنے لگتے ہیں۔
تانبے اور پیتل کے چمکدار مختلف قسم کے برتن، بیٹی کے جہیز میں دینا ایک قدیم روایت ہے جو آہستہ آہستہ مفقود ہوتی جا رہی ہے۔لیکن قدیم گھرانوں میں آج بھی تانبے کے گنگال، بھپکے، دیگ، بگھونے وغیرہ موجود ہیں جن کی چمک دھیرے دھیرے یا مسلسل استعمال سے ماند پڑتی جا رہی ہے لہذا پانچ چھ سال میں ایک مرتبہ انہیں قلعی کروانا پڑتا ہے۔
قلعی گر وں کا کہنا ہے کہ ان کے زیادہ تر گاہک اب ہوٹل والے ہیں جہاں بڑی مقدار میں پکوان تانبے کے برتنوں اور دیگوں میں ہی پکتے ہیں۔قلعی گروں کا کہنا ہے کہ برتن کے سائز کی مناسبت سے اْجرت وصول کی جاتی ہے۔ جو 50 روپے سے لیکر 1000 روپے تک بھی ہو سکتی ہے۔