بندر تماشہ
متعدد رنگا رنگ ثقافتوں کو اپنے اندر سمونے والے جنوبی ایشیاء کے رنگوں والے ملک پاکستان میں بندر سدھانے یا پھر بندر کی مداری سے ایک تواتر کے ساتھ سامنا ہوتا ہے۔ بندروں کو مختلف طرح کے کرتب سکھا کر ان سے تماشا کروایا جاتا ہے اور یہ انسانوں کے لئے تفریح طبع کا سامان بنتا ہے اور بندر والے کے لئے روزی روٹی کا ذریعہ۔
بندر کے گلے میں ایک ڈوری باندھے مداری سرِ راہ جا رہا تھا جیسے ہی اْسکی ڈگڈی کی آواز محلے کے بچوں کے کانوں میں پڑی تو سب اکٹھے ہو گئے۔ بندرکے گلے میں ایک سرخ رنگ کا پٹہ تھاجس میں ایک گھنگھرو ٹکا ہوا کرتا تھا۔ وہ اپنے مالک کے مقابلے میں زیادہ چاق وچوبند نظر آتاتھا۔
دائرے کے بیچ، فرش پر ایک چھوٹا سا مونڈھا رکھا تھا جس پر اس نے بندر کو بٹھا رکھا تھا۔ بندر ایک گومگو کی کیفیت میں، اپنی چھوٹی آنکھوں کو ٹپٹپا کے، کبھی اپنے تماش بینوں کو دیکھ لیتا اورکبھی کبھی اپنے پیروں کو دیکھنے لگتا۔ بندر والا مسلسل بول رہا تھا۔ اس کی قمچی کے اشارے پر بندر نے دو تین قلابازیاں کھائیں اور پچھلے دو پیروں پر کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ کر مجمع کو دیکھا اور پھر اپنے مونڈھے پر بیٹھ کر اپنے ناخنوں کو دیکھنے لگا۔ لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں۔
اگر ماضی کے بندر تماشوں کا مقابلہ آج کے تماشے سے کیا جائے تو ہر چیز کی طرح بندر تماشہ بھی بہت بدل گیا ہے،بندر کو نچانے والے نے بھی کافی ترقی کرلی ہے پہلے صرف بندر ہوتا تھا اور ایک ڈگڈی لیکن اب تو بندر کے ساتھ ساتھ بکری، کتا اور سانپ وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ مداری یہ بات جان گیا ہے کہ عوام بندر سے اکتا جاتے ہیں تو اسلئے وہ کبھی بکری سے دو چار کرتب کرواتا ہے اور کبھی سانپ چھوڑ دیتا ہے اور اس کے بعد پھر سے بندر کی باری کیوں کہ عوام کے آگے ڈبہ لے کر جانے والا تو بندر ہی ہوتا ہے۔
بندر تماشے کی ایک اور مزے کی بات ڈگڈگی ہے جو مداری کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ چھڑی ہلانے کے ساتھ ساتھ ڈگڈگی بجاتا جاتا ہے جس کے بل پر بندر ناچتا جاتا ہے اور خود مداری بھی کچھ نہ کچھ بڑ بڑاتا رہتا ہے۔ کئی بار بندر کے ناچ سے جب تماشبین بور ہونے لگتے تو مداری ڈگڈگی کا ساز تبدیل کر دیتا ہے کبھی آواز اونچی کردیتاہے اور کبھی نیچی کردیتا۔
بندر مداری کے اشاروں پر قلابازیاں کھاتا اور پچھلے پیروں پر کھڑا ہوکر، قمچی کوتکنے لگتا ہے۔ پھر قمچی کے اشارے پر، دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے با ندھ کر، اپنے پچھلے پیروں پر چل کر دائرے کے بیچ خاموش کھڑے ہو کے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح جوڑکر اوپر اٹھاتا ہے، جیسے دعا مانگنے کے لئے اٹھا تے ہیں، چند سیکنڈ وں کے لئے خاموش کھڑا رہتااور پھر سجدے میں گر جاتا۔ پھر مداری اْسے تھیلے میں سے لال رنگ کی ٹوپی نکال کر دیتا اور کہتا کہ یہ بندر اپنے سسرال جا رہا ہے سو سسرال جانے کے لیے بندر کو پیسے درکار ہیں۔اس لیے وہ تماشائیوں سے سسرال جانے کے لیے اپنی لال ٹوپی میں تماشائیوں سے پیسے اکٹھے کرتا ہے۔