بسنت

بسنت کا تہوار اس موسم میں آتا ہے جب فطرت نیا چولا بدلتی ہے۔ دھرتی اپنا پیرہن تبدیل کرتی ہے۔ زندگی نئی کروٹ لیتی ہے اور درختوں پر نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں۔ ہر طرف ہریالی اور سبزہ نظر آتا ہے۔ اس سحر انگیز کیفیت کو ہر ذی روح محسوس کرتا ہے اور یہ موسم خوشیوں بھرے تہواروں کا موسم ہے۔شمالی برصغیر بالخصوص سرحد کے اس پار کے مقامی اور روایتی تہواروں میں بسنت کو ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ اس خطے میں بسنے والی ہندو، سکھ اور مسلمان تینوں قومیں صدیوں سے اسے مناتی آ رہی ہیں۔ بسنت کو مخصوص انداز سے منانا یہاں کی ثقافت ہے جب کہ ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان میں موسم بہار کو جشن نو روز کے نام سے منایا جاتا ہے۔
کلکتہ میں بسنت کے موقع پر سرسوتی دیوی کو تیار کیا گیا ہے۔بسنت یا بسنت پنچمی موسم بہار میں منائے جانے والا بنیادی طور پر ہندوؤں کا ایک تہوار ہے۔ یہ پانچویں ہندو مہینہ ماگھ کی 5 تاریخ کو ہوتا ہے اور ویدوں میں اس کا تعلق سرسوتی دیوی سے بتایا جاتا ہے جو ہندو مت میں موسیقی اور آرٹ (فن) کی دیوی سمجھی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر بسنت سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب”بہار“ ہے۔ اسے بسنت پنچمی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ ماگھ کی پانچ تاریخ کو منایا جاتا ہے جو عموماً فروری کے مہینے میں آتا ہے۔ ویدوں میں لکھا ہے کہ یہ سرسوتی دیوی کا دن ہے۔ اس دن خوشی منائی جاتی ہے اور سرسوتی دیوی کی پوجا کی جاتی ہے۔ خوشی کے اظہار کے لیے نئے کپڑے پہنے جاتے ہیں اور پتنگیں اڑائی جاتی ہیں اور موسیقی سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔
بسنت کو ہندوستان کے بعض علاقوں میں دیگر مذاہب کے افراد بھی مناتے ہیں اور اس کی تاویل یہ دیتے ہیں کہ سردیوں کا موسم ختم ہو رہا ہوتا ہے لوگ جو موسم کی شدت کی وجہ سے گھروں میں بند تھے۔ درجہ حرارت مناسب ہونے پر گھروں سے باہر آتے ہیں اور خزاں اور سرما کی بے رنگی اور بدمزگی جو اِن کے مزاج اور آنکھوں پر چھائی ہوئی ہے۔اسے باہر آکر تیز رنگوں والے کپڑے پہن کر باہر گھوم پھر کر یا پتنگ بازی کر کے طبیعت کے اس زنگ کو اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شوق کا زیادہ اظہار پتنگ بازی کی شکل میں نکلتا ہے۔ سپاٹ آسمان اچانک رنگوں سے سج جاتا ہے۔ خاکی رنگ کی زمین سرسوں کے پیلے اور ہرے رنگ کی وجہ سے رنگین ہو جاتی ہے۔ بہار کے دوسرے پھول اور پرندوں کی چہچہاہٹ خوشیوں کے پیغام لاتی ہیں کہ یہ بسنت ہے یہ جشن بہاراں ہے۔ فطرت کے اس رنگوں بھرے اور خوشیوں بھرے جشن میں انسان بھی شریک ہو جاتے۔
 پا کستان میں موسم بہار کی آمد سے ہفتوں پہلے گلیوں میں ڈور کو رنگ بہ رنگا مانجھا لگانے والوں کا کام بڑھ جاتا، بازاروں اور گھروں میں پتنگ ساز کاغذ اور بانس کی تیلیوں سے مختلف شکلوں کی خوب صورت پتنگوں کے شاہکار تخلیق کرتے۔شہر میں ایک معاشی سرگرمی شروع ہو جاتی جس سے اس کار و بار اور تہوار سے جڑے لوگوں کا سال بھر کا خرچ نکل آتا۔لیکن وقت نے کروٹ بدلی اور خوشیوں کو کسی کی نظر کھا گئی۔  دھاگے کی ڈور کی جگہ کیمیکل ڈور نے لے لی، اور اس سے اڑتی پتنگوں نے معصوم شہریوں کی زندگیوں کے چراغ گل کرنا شروع کر دیے۔ دوسری جانب ہوائی فائرنگ اورچھتوں سے گر کر جانیں ضائع ہونے کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا۔
بسنت منانے والوں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی بنا پر صوبائی حکومت نے سن  2009میں اس تہوار کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔اب وہ وقت ہے جب پتنگ رکھنا، بیچنا اور اڑانا، جرائم قرار دیے گئے ہیں۔
ضرورت اس امر کی تھی کہ کیمیکل ڈور، دھاتی تار بنانے، بیچنے اور استعمال کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں مقرر کی جاتیں۔ ہوائی فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی۔لیکن اس سب کی بجائے  اس خوبصورت تہوار کو بند کر دیا گیا۔ جس سے اس صنعت سے منسلک افراد کو کافی نقصان پہنچا۔ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف پنجاب میں ہی دس لاکھ سے زائد افراد پتنگ سازی کی صنعت سے براہ راست جڑے ہوئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر پتنگ ساز گھریلو دست کار تھے جن میں ایک غالب اکثریت خواتین کی تھی۔
بسنت پر پابندی نہ صرف ہزاروں خواتین کو بے روز گار کر گئی بلکہ اس نے دیگر شعبوں جیسے بانس، دھاگا، اور کاغذ کی صنعتوں کو بھی متاثر کیا۔ پتنگ سازی کی صنعت اور اچانک پابندی کی وجہ سے، گھر کی چار دیواری میں بیٹھی پتنگ ساز خواتین اپنی روز مرہ آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔
جس کی وجہ سے لاکھوں ہنرمندوں کے گھروں کے چولہے بند ہوئے، ان کے بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہو گئے۔
محبت، خوشی اور گرم جوشی کی علامت بسنت کے دن کو غیر ذمہ درانہ اور مفاد پرست رویے کھا گئے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail