بان کی چارپائی
بان کی چارپائیاں ایک زمانے تک پاکستان میں گھروں کا حصہ رہی ہیں۔ گھر چھوٹا ہو یا بڑا، گاؤں میں ہو یا شہر میں، ہر جگہ ہی آرام دہ اور دیدہ زیب رنگوں سے سجے یہ پلنگ ہماری تہذیبی روایت سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ سب مفقود ہوتا چلا جارہا ہے اور اس کی جگہ نائیلوں کی اور لوہے کی ہلکی پھلکی چارپائیوں نے لے لی ہے۔ پنجاب میں آج بھی کہیں کہیں بڑے گھروں اور صحن میں لکڑی، بان اور نواڑ کی چارپائی رکھنے کا رواج موجود ہے۔ بڑے شہروں میں لکڑی کی چارپائی کا استعمال نہیں ہے۔ کیونکہ بڑے شہروں کے چھوٹے گھر ان چارپائیوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نواڑ اور بان کی چارپائیاں قدرتی طور پر انسانی صحت کیلئے مفید قرار دی جاتی ہیں۔
دیہات میں لوگوں کے گھر اور صحن کھلے ہوتے ہیں۔ وہاں چارپائی کی جگہ بن جاتی ہے۔ شہروں میں تو لکڑی کی چارپائی کو گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ لکڑی کی چارپائی دیکھی جائے تو سب سے پہلے تو لکڑی ہی خاصی مہنگی ہوتی ہے۔ اس پر اس کا وزن اور پھر اس کا حجم لوہے کی چارپائی سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اب ایک طرف نائیلون کی چارپائی سستی، دیدہ زیب اور ہلکی دکھائی دیتی ہے، تو وہیں لکڑی کی چارپائی بھاری بھرکم اور مہنگی ہوتی ہے۔ لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ نائیلون کی چارپائی انسانی صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ آپ نواڑ کی کی چارپائی پر سو کر دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ نائیلون کے مقابلے میں اس پر کافی آرام ملتا ہے اور نیند بھی بھرپور ہوتی ہے، کیونکہ نواڑ سُوتی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں نائیلون کی چارپائی سخت ہوگی اور آپ کی نیند بھی بھرپور نہیں ہوگی۔ اگر ایک شخص نیند اچھی نہیں کرسکے گا تو اس کا جسم لامحالہ سو بیماریوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔ اس کے مقابلے میں بان کی چارپائی دیکھ لیں۔ وہ سخت ہوگی لیکن وہ نیند بھی بھرپور دے گی اور آپ کو جوڑوں کا درد، کمر درد اور شوگر جیسی موذی بیماریوں سے بچائے گی۔ پہلے دور میں لوگ بان کی چارپائی پر سویا کرتے تھے۔ کبھی کسی نے گھٹنے کے درد کی شکایت نہیں کی تھی۔
لکڑی کی چارپائی کے پائے رنگین ہوتے ہیں، جو دیکھنے میں بہت بھلے لگتے ہیں۔ رنگین پائے آج بھی جھنگ اور چنیوٹ میں بنتے ہیں۔ چارپائی سے بہت سی واقعات بھی وابستہ ہیں۔ بچپن میں ہم سنتے تھے کہ چارپائی پر سانپ نہیں چڑھ سکتا، حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ البتہ کچھ مخصوص قسم کی لکڑی ہوتی ہے، جس پر سانپ نہیں چڑھتا، کیونکہ اس لکڑی میں کڑواہٹ ہوتی ہے۔ اسی طرح گاؤں دیہات میں چارپائیوں پر جرگے منعقد ہوتے تھے۔ اب بھی جہاں جرگہ سسٹم ہے، وہاں چارپائیوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور وہ بان یا نواڑ سے بنی لکڑی کی مضبوط چارپائیاں ہوتی ہیں۔ نائیلون کی چارپائی کیلئے عام طور پر چپٹی یا گول نائیلون سے بنی پٹی استعمال ہوتی ہے۔ بان اور نواڑ کے علاوہ کھجور کے پتوں سے بنائی گئی ڈوری سے بھی چارپائی بنائی جاتی تھی۔ جبکہ اس کی پائینتی کیلئے بھی کھجور سے بنی ہوئی رسی استعمال ہوتی تھی۔ اب تو پائینتی میں بھی نائیلون استعمال ہو رہا ہے۔
دیہاتوں میں چارپائی کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کے بہت سارے معاملات وابستہ تھے۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں سب سے اولیت چارپائیوں کو دی جاتی تھی۔ اردگرد کے گھروں سے چارپائیاں اکٹھی کی جاتیں، لوگ تعلقات کو مدنظر رکھ کر چارپائی دے دیا کرتے تھے۔ اگر کسی کے گھر اچانک زیادہ مہمان آگئے تو آس پڑوس سے چارپائیاں مانگنے کا مرحلہ درپیش ہوتا۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ اس سے تعلقات میں مضبوطی آتی۔ چارپائی انسان کے دکھ سکھ کی ساتھی تھی اور ایک دوسرے کو قریب لانے کا موجب بھی۔ یہ رواداری اور وابستگی کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ لیکن جیسے جیسے ترقی ہوئی ہے، ہم نے لکڑی کی چارپائی کو گھر سے نکال کر لوہے کی چارپائی کو جگہ دے دی ہے، جو سستی بھی ہے اور ہر گھر میں وافر موجود بھی ہے۔