بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کا عالمی دن
13 اگست کو دنیا بھر میں ”بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے، ”لیفٹ ہینڈرز ڈے“ یعنی ”بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کا دن“ منانے کا مقصد ایسے افراد کی انفرادیت کا اعتراف کرنا اور ان کو درپیش چھوٹے چھوٹے مسائل کا احساس کرنا ہے۔ اس کا ایک پہلو بائیں ہاتھ والے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جو اپنے ہم عمر دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بچوں کے درمیان خود کو مختلف محسوس کرتے ہیں۔
اس دن کو منانے کا آغاز 1976ء میں ایک امریکی فوجی اہلکار ڈین کیمپبل نے کیا تھا جنہوں نے لیفٹ ہینڈرز انٹرنیشل نامی ادارے کی بنیاد ڈالی تھی، برطانیہ میں اس دن اہم تقاریب منعقد ہوتی ہیں جن کا مقصد بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔بائیں ہاتھ سے ہر کام کو ترجیح دینے اور سہولت سے انجام دینے والے دنیا بھر کے کل 13 فیصد مرد اور 11 فیصد خواتین ہیں، بعض معاشروں میں ان کی مجموعی تعداد 20 فیصد تک بھی ہوتی ہے۔
سائنس دانوں نے اس بات پر تحقیق کی کہ لوگ ”لفٹ ہینڈرز“ کیوں ہوتے ہیں؟ ان کے مطابق جڑواں بچے، جو ایک ہی جین کا اشتراک کرتے ہیں، بعض اوقات ان کے ہاتھ مختلف ہو سکتے ہیں، یہ حمل میں کشیدگی سے بھی منسلک ہے، ایک برطانوی تحقیق میں، انتہائی دباؤ والی حاملہ خواتین کے ہاں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے بچوں کی پیدائش کا امکان ہوتا ہے، دیگر شواہد اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ہیلتھ رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ دائیں ہاتھ والوں کے مقابلے بائیں ہاتھ کا استعمال کرنے والے بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ الٹے یا بائیں ہاتھ سے کام کرنے والے زیادہ مشکل مسائل پر بہتر توجہ دے سکتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اسکاٹ لینڈ کی ایک یونیورسٹی کی جانب سے اس سلسلے میں ایک تجربے کے تحت 50 بائیں ہاتھ والوں کا 50 دائیں ہاتھ والوں سے مقابلہ بھی کروایا مگر یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ بائیں ہاتھ والے ناکام ہونے کے خوف سے بہتر یا تیز کام کر رہے تھے یا دائیں ہاتھ والے کامیابی کے شوق میں مبتلا تھے۔تاہم یہ کوئی سائنسی دریافت یا دلائل کے ذریعے ثابت ہونے والی حقیقت نہیں کہ بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے فیصلے زیادہ صحیح ہوتے ہیں۔یہ بھی بتایا گیا کہ بہتر فیصلہ وہ کرتے ہیں جو کچھ کرنے سے پہلے سوچنا بھی ضروری سمجھتے ہیں چنانچہ بہتر سوچنے کا تعلق دائیں یا بائیں ہاتھ سے نہیں ہوتا، سوچنے کا تعلق دماغ، علم اور تجربے سے ہوتا ہے۔
محققین کے مطابق دنیا میں 10 میں سے ایک شخص بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہے اور زیادہ تر جتنی نامور شخصیات گزری ہیں وہ سب الٹے ہاتھ کے لکھاری تھے جن میں سابق امریکی صدر براک اوباما سمیت 8 امریکی صدور بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے۔اس کے علاوہ البرٹ آئن سٹائن، مارک ٹوئن،میری کیوری، نیکولا ٹیسلا اور ارسطو شامل ہیں۔اس کے علاوہ برطانیہ کے شہزادہ ولیم، ارب پتی مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس بل گیٹس اور فیس بک کے بانی مارک زکربرگ بھی بائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق دماغ کے دو حصہ ہوتے ہیں اور نرو سیل (nerve cells) دماغ کے دونوں حصوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے، لیکن جھکاؤ زیادہ بائیں ہاتھ کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ صلاحیت رکھنے والے افراد اپنے ذہن میں معلومات کی ذخیرہ اندوزی پر بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔
بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کے دماغ میں کیا تبدیلی آتی ہے؟
بی بی سی کے مطابق آکسفورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق میں انسا نی ڈی این اے کے 4 ایسے حصوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو اس بات کا تعین کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں کہ آیا کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا ہے یا دائیں ہاتھ سے۔ایسے لوگ جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے تھے ان میں 4 جینز میں ’میوٹیشن‘ پائی گئی جو جسم کے سائٹوسکلٹن کے لیے کوڈ ترتیب دیتی ہیں یہ پیچیدہ نظام خلیوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو ان کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے۔جن افراد میں یہ میوٹیشن پائی گئی ان کے سکین سے معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میں سفید مادے کی ساخت مختلف تھی۔بائیں ہاتھ والے لوگوں کے دماغ کے بائیں اور دائیں حصے بھی دائیں ہاتھ والے لوگوں کی نسبت بہتر جڑے ہوئے تھے۔
قدیم حکمرانوں میں سکندر اعظم، جو لیس سیزر، نپو لین بو نا پارٹ، ونسٹن چرچل اور ہوگو شاویز بھی بائیں ہاتھ سے کام کر تے تھے، دنیا کے امیر تر ین شخص بل گیٹس کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جبکہ اس فہرست میں ارسطو، آئن سٹائن، نیل آرم سٹرانگ، نیوٹن، مارک ٹوین، کا فکا، مارلن منرو، جولیا رابر ٹس، انجلینا جولی، چارلی چپلن کا نام آتا ہے، کرکٹ میں وسیم اکرم، برائن لارا اور گیری سوبرز نے بھی بائیں ہاتھ سے نام کمایا ہے۔