پشاور شہر اور جگنو
پشاور شہر کی ایک نسل ہے کہ جو جگنوکو دیکھتے، مُٹھی میں قید کرکے جوان ہوئی اور آج کی نئی نسل صرف کتابوں اور ویڈیوز میں ہی جگنو کو دیکھ سکتی ہے۔
وسطی، جنوبی اور مغربی ایشیاء کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہونے کی وجہ سے پشاور صدیوں سے افغانستان، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان ایک مرکز کی حیثیت سے قائم چلا آیا ہے۔ وید دیومالا میں پشاور اور آس پاس کے علاقے کو ''پشکلاوتی'' کے نام سے جانا جاتا ہے جو ''رامائن'' کے بادشاہ ''بھارت'' کے بیٹے ''پشکل'' کے نام سے منسوب ہے۔ تاہم اس بارے ابھی کوئی یقینی رائے موجود نہیں۔ مصدقہ تاریخ کے مطابق اس علاقے کا عمومی نام ''پورش پورہ'' (انسانوں کا شہر) تھا جو بگڑ کر پشاور بن گیا۔ دوسری صدی عیسوی میں مختصر عرصے کے لیے وسطی ایشیا کے توچاری قبیلے ''کشان'' نے پشاور پر قبضہ کر کے اسے اپنا دارلحکومت بنایا۔
اس کے بعد 170 تا 159 ق م اس علاقے پر یونانی باختر بادشاہوں نے حکمرانی کی اور اس کے بعد مملکتِ یونانی ہندکے مختلف بادشاہ یہاں قابض ہوتے رہے۔ ایک تاریخ دان کے مطابق پشاور کی آبادی 100 عیسوی میں 000،20،1 کے لگ بھگ تھی اور اس وقت آبادی کے اعتبار سے دنیا کا 7واں بڑا شہر تھا۔ بعد میں پارتھی، ہند پارتھی، ایرانی اور پھر کشان حکمرانوں نے قبضہ کیے رکھا۔
1947 میں پشاور نوزائیدہ پاکستان کا حصہ بن گیا۔1950 کی دہائی کے وسط تک پشاور دیواروں کے بیچ گھرا شہر تھا جس کے 16 دروازے تھے۔ ان میں کابلی دروازہ سب سے زیادہ مشہور تھا۔ جنوری 2012 میں اس وقت کے ڈی سی او سراج احمد نے اعلان کیا کہ ''وقت کے ساتھ ساتھ شہر کے تمام پرانے دروازے پرانی حالت میں بحال کر دیے جائیں گے''۔ شہری آبادی کے تناسب سے شہر کا حجم نہیں بڑھا اور اسی وجہ سے آلودگی اور آبادی کی گنجانی کی وجہ سے شہر پر بْرے اثرات ہور ہے ہیں۔ آبادی کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں افغان گاڑیاں بھی شہر سے گذرتی ہیں جس سے شہر کی فضاء مزید آلودہ ہو رہی ہے۔گاڑیوں کے دھوئیں سے کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، دھواں، مٹی اور ٹیٹرا ایتھائل لیڈ پھیلتا ہے۔ ایندھن میں ملاوٹ اور غیر معیاری مرمت شدہ گاڑیوں کی وجہ سے مزید آلودگی بڑھ رہی ہے۔ بری حالت میں موجود سڑکوں اور سڑک کے کچے کناروں پر چلنے والی گاڑیوں سے بہت دھول اڑتی ہے۔ افغان سرحد پر ہونے کی وجہ سے پشاور میں بہت بڑی تعداد میں افغان ٹریفک بھی آتی ہے۔
2012 میں پشاور افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ پشاور پاکستان کے اندر اہم شہر کی حیثیت رکھتا ہے اور پشتون ثقافت اور گندھارا آرٹ کا مرکز ہے۔
پشاور کو کبھی پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ یہ شاید اُن وقتوں کی بات ہے جب اس شہر میں باغات ہوا کرتے تھے اور جگہ جگہ خود رو پھول دکھائی دیتے تھے۔
اس شہر کا قصہ خوانی بازار جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان کاروبار اور قصوں کے ذریعے پُل کا کردار ادا کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شہر پر دونوں تہذیبوں کے اثرات تھے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث اس شہر میں اب ڈھونڈنے سے ہی یہ پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ باغ اور پھول کیا گئے اس شہر کے جگنو بھی ساتھ لے گئے۔
اندرونِ شہر کے علاقے گنج کے رہائشی بزرگ کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری بار جگنو 25 برس قبل دیکھے تھے- اپنے بچپن میں وہ جگنو کو چھوٹا طوطا کے نام سے پکارتے تھے، لیکن آج اُن کے پوتے پوتیوں کو تو پتہ بھی نہیں کہ جگنو کیا ہیں یا کیسے ہوتے ہیں۔وہ ماضی کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے خود شہر میں انار، خوبانی اور انگور کے باغات دیکھے تھے اور رات کے وقت ہوتے ہی سارے شہر میں جگنو چمکنے لگتے تھے۔اور بہت دلکش نظارہ دیتے تھے۔ہم لوگ ان جگنووں کے پیچھے بھاگتے اور انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے اور سب سے پْر لطف بات یہ ہوتی کہ ہم اپنے گھروں میں جا کر تمام لائیٹیں بند کر کے اندھیرے میں ان کی روشنیوں سے خوب مزہ کرتے۔
پشاور کی حالیہ آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں پشاور دنیا کا بارہواں آلودہ ترین شہر رہا۔ شاید جگنوؤں کے شہر میں ناپید ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔دراصل بے پناہ آبادی اور آلودگی ہی بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے کئی قسم کے حشرات الارض اور پرندے اب پشاور میں ناپید ہو چکے ہیں۔
پشاور کے بزرگ رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جگنوؤں کو سبزہ چاہیے جو بدقسمتی سے شہر میں اب بہت کم ہو چکا ہے۔ شہر سے باہر جہاں سبز کھیت ہیں وہاں آج بھی جگنو پائے جاتے ہیں لیکن شہر میں آبادی اور آلودگی بڑھنے کے باعث جگنو اب پشاور شہر میں نہیں پَل سکتے۔
پشاور شہر کی ایک نسل ہے کہ جو جگنوکو دیکھتے، مُٹھی میں قید کرکے جوان ہوئی اور آج کی نئی نسل صرف کتابوں اور ویڈیوز میں ہی جگنو کو دیکھ سکتی ہے۔