پروبوسس بندر
پروبوسس بندر اُن جانوروں کی فہرست میں شامل ہیں جن کی نسل ختم ہونے کے خطرے میں ہے۔کچھ اندازوں کے مطابق بورنیو کے جنگلات میں صرف چند ہزار پروبوسس بندر رہ گئے ہیں اور اِن کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے
پروبوسس بندروں کی پہچان لمبی اور موٹی ناک ہوتی ہے۔کچھ نر بندروں کی ناک ۱۸ سینٹی میٹرلمبی ہوتی ہے جو کہ اُن کے جسم کی لمبائی کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہوتی ہے۔اگر ہماری ناک بھی اِسی مناسبت سے لمبی ہو تو یہ ہمارے سینے تک لٹکے گی۔ چونکہ نر بندروں کی ناک ٹھوڑی تک لٹکی ہوتی ہے اِس لئے کھانا کھاتے وقت اُن کو اپنی ناک ایک طرف کرنی پڑتی ہے۔نر بندر اپنی لمبی اور موٹی ناک سے دوسرے نر بندروں کو دھمکاتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب اُسے غصہ آتا ہے تو اُس کی ناک پھول کر لال ہو جاتی ہے اور دوسرے بندر ڈر جاتے ہیں۔ ایک اَور نظریے کے مطابق لمبی چوڑی ناک کی وجہ سے بندر کی آواز بھاری ہو جاتی ہے اور اُس کے جسم سے گرمی بھی خارج ہوتی ہے۔
پروبوسس بندروں کی توند نکلی ہوتی ہے۔ اُن کا معدہ اِتنا بھرا ہوتا ہے کہ اِس کا وزن اُن کے جسم کے ایک چوتھائی حصے کے برابر ہوتا ہے۔لیکن اِن بندروں کا پیٹ اِتنا پھولا کیوں ہوتا ہے۔دراصل پروبوسس بندروں کے ہاضمے کا نظام بڑا انوکھا ہے۔گائے کے معدے کی طرح اِن بندروں کے معدے میں بھی خاص قسم کا بیکٹیریا ہوتا ہے۔یہ بندر ایسی خوراک کھاتے ہیں جسے دوسرے بندر ہضم نہیں کر سکتے مثلاً مختلف بیج اور پھلیاں جن میں مٹھاس نہ ہو،پام کے درختوں کے پتے اورطرح طرح کے سبز پودے وغیرہ۔اِن بندروں کے معدے میں موجود بیکٹیریا خوراک کو خمیر کرتا ہے اور اِس میں موجود زہر کو ختم کر دیتا ہے۔
لیکن پروبوسس بندر اپنے ہاضمے کے نظام کی وجہ سے مشکل میں بھی پڑ سکتے ہیں۔ میٹھا پھل اُن کے معدے میں بڑی تیزی سے خمیر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اُن کا پیٹ خطرناک حد تک پھول سکتا ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر مر سکتے ہیں۔ اِس لئے یہ بندر میٹھا کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔چونکہ پروبوسس بندر ایسی خوراک کھاتے ہیں جو بہت مشکل سے ہضم ہوتی ہے اِس لئے کھانا ہضم ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔پھر کئی گھنٹوں تک آرام کرتے ہیں۔
چاہے بات کھانے کی ہو یا آرام کرنے کی پروبوسس بندر ہمیشہ اپنے ٹولے میں رہتے ہیں۔ہر ٹولے پر ایک نر بندر راج کرتا ہے۔اُس کے ٹولے میں تقریباً آٹھ بیویاں اور بہت سے بچے ہوتے ہیں۔ جب نر بچے جوان ہو جاتے ہیں تو ٹولے کا سردار اُن کو اپنے ٹولے سے نکال دیتا ہے۔ پھر یہ جوان بندر دوسرے نر بندروں کے ساتھ مل کر اپنا ٹولا بنا لیتے ہیں۔اکثر ایسے ٹولوں میں بھی ایک یا دو بڑے نر بندر ہوتے ہیں۔اِس لئے اِن ٹولوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے ایک سردار اپنی بیویوں اور بچوں کے ساتھ ہے۔
پروبوسس بندروں کی ناک تو عجیب ہوتی ہی ہے لیکن اُن کے پاؤں بھی کچھ الگ ہی ہوتے ہیں۔دراصل اُن کے پاؤں کی اُنگلیوں کے بیچ میں جھلی ہوتی ہے جس کا اُنہیں بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بندر ساحلی جنگلوں میں رہتے ہیں جہاں دریا سمندر میں گِرتے ہیں۔وہ اپنے انوکھے پیروں کی وجہ سے نہ صرف پھرتی سے تیر سکتے ہیں بلکہ کیچڑ میں آسانی سے چل بھی سکتے ہیں۔ اِس علاقے میں بہت سے مگرمچھ بھی ہوتے
ہیں۔ جب پروبوسس بندر دریاوں کو پار کرتے ہیں تو مگرمچھ اُن کی تاک میں ہوتے ہیں۔یہ بندر چپکے سے دریا میں اُترتے ہیں اور قطار بنا کر بڑی خاموشی سے تیرتے ہوئے دریا پار کر لیتے ہیں۔ لیکن اگر دریا زیادہ چوڑا نہ ہو تو وہ فرق حربہ استعمال کرتے ہیں۔وہ تقریباً ۹ میٹراُونچی شاخ سے دوڑ کر چھلانگ مارتے ہیں اور پیٹ کے بل دریا میں گِرتے ہیں۔ پھر وہ بڑی تیزی سے تیر کر دریا کے دوسرے کنارے چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بندریاں بھی اپنے چھوٹے بچوں کو لے کر اِسی طرح دریا پار کرتی ہیں۔ کبھی کبھار پورا ٹولا ایک ساتھ دریا میں چھلانگ لگاتا ہے اور جلدی جلدی تیر کر دوسری طرف چلا جاتا ہے۔لیکن پروبوسس بندر کا سب سے بڑا دُشمن مگرمچھ نہیں ہے
اِن بندروں کے سب سے بڑے دُشمن انسان ہیں۔وہ جنگلوں کو آگ لگا دیتے ہیں، لکڑی حاصل کرنے کے لئے درختوں کو کاٹ دیتے ہیں اور پام آئل کے درختوں کی کاشت کرنے کے لئے جنگلات کا صفایا کر دیتے ہیں۔ یہ بندر دریا کے کنارے لگے درختوں پر سوتے ہیں اِس لئے اِن کا شکار کرنا آسان ہوتا ہے۔ اکثر شکاری موٹر والی کشتیوں میں شکار کرنے آتے ہیں۔ ایک علاقے میں شکاریوں نے پانچ سال میں اِتنے پروبوسس بندر مارے کہ وہاں اِن کی تعداد میں پچاس فیصد کمی آ گئی۔اگر اِن کی نسل ختم ہو گئی تو یہ بڑے افسوس کی بات ہوگی کیونکہ پروبوسس بندر قدرت کا ایک عجوبہ ہیں۔