منٹھل بدھا راک
گلگت بلتستان کے شہر سکردو کے نزدیک تقریباً 12 سو سال پرانے آثار قدیمہ موجود ہیں جن میں سے ایک ’منٹھل بدھا راک‘ بھی ہے، جس پر بدھ مت دور کے مذہبی پیشواوں کی 20 سے زائد تصاویر کندہ ہیں۔ماہرین کے اندازے کے مطابق اس چٹان پر کندہ کاری آٹھویں سے دسویں صدی کے درمیان کی گئی، اس وقت اس علاقے میں بدھ مت مذہب کے لوگوں کی کثرت تھی۔
اس چٹان پر کندہ منظر میں ایک بدھا کو آلتی پالتی مارے بیٹھا دیکھا جاسکتا ہے، جس کے دائیں اور بائیں 20 چھوٹے بدھا بنائے گئے ہیں اور ان کے ساتھ دو بدھا کھڑے ہوئے ہیں۔اس چٹان پر تبتی زبان کے رسم الخط میں تحریر بھی ہے، جو آج بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ یہ چٹان علاقے کی اہم یادگاروں میں شامل ہے۔
گلگت بلتستان میں اس وقت سیاحوں کی آمد کے ساتھ ساتھ اس بدھا راک کو دیکھنے کے لیے سیاح ضرور آتے ہیں، ساتھ ہی یادگار کے لیے تصویر کے علاوہ اس چٹان کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو کر جاتے ہیں۔
اس کی حفاظت گلگت بلتستان کے محکمہ سیاحت اور ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام ہے۔ اس کا اصل نام ’منڈھالا دربار یا منٹھل بدھا راک ہے۔
یہ علاقہ اسلام سے پہلے بدھ مت کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا اور لداخ، بلتستان، تبت ان سارے علاقوں میں بدھ مت مذہب کا راج تھا اور اسلام کے آنے کے بعد یہاں بدھ ازم کا سلسلہ ایک طرح سے بند ہوگیا ہے۔ اس کے آثار بلتستان میں مختلف چٹانوں پر نقوش کی صورت میں موجود ہیں۔
ان سب میں سے اہم ترین جو آثار ہے وہ سکردو منٹھل میں بدھا راک ہی مانا جاتا ہے جس میں بیچ میں میں ایک بڑا بدھا ہے جس کے بارے میں محققین کا خیال ہے یہ گوتم بدھ ہے اور پھر ان کے اردگرد 20 چھوٹے چھوٹے بدھا بھی ہیں۔ یہ سب کنول کے پھولوں پر براجمان ہیں جس کو بدھ ازم میں متبرک سمجھا جاتا ہے۔ جو بدھا اردگرد موجود ہیں ان کے بارے میں کہتے ہیں یہ بدھ اصطلاح میں ’’کلپاس“ کہلاتے ہیں جو گزرے ہوئے بدھا ہیں۔
یہ چٹان تقریباً 30 فٹ اونچی ہے اور 20 سے 25 فٹ چوڑی ہے اس میں جہاں تصاویر نقش ہیں وہاں اس جو کچھ تحریر بھی ہے۔ تبتی زبان میں ان تحریروں میں بدھ تعلیمات کے حوالے سے ہے جس کا تعلق ماحولیات سے جوڑا جاتا ہے۔
اتنے سال گزرنے کے بعد اب بھی یہ آثار قدیمہ اسی طرح موجود ہے، ہر سال بدھ زائرین یہاں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحقیق اور آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے لوگ بھی آتے ہیں۔