ماحولیات کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داری

دنیا میں ہرسال پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتاہے تاکہ بنی نوع انسان کو یاد دلایا جا سکے کہ وہ کرہ ارض پر اکیلے نہیں رہتے۔نظام حیات میں بہت بڑا قدرتی ماحولیاتی نظام ہے جس پر جانداروں کی بقا منحصر ہے۔سویڈن کے شہر اسٹاک ہوم میں 1972 میں اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام کانفرنس بعنوان”صرف ایک زمین“ کا مقصد دنیا بھر میں ماحول کے تحفظ کو اجاگر کرنے اور عالمی سطح پر ماحولیات کے تحفظ پرعملی اقدامات اُٹھانے کے لیے منعقد کی گئی۔ اس کانفرنس نے پائیدار ترقی کو عالمی ایجنڈے پر رکھا اورعالمی ماحولیات کے ادارے کے قیام پر زور دیا۔ اسٹاک ہوم کانفرنس کا بڑا نتیجہ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی تشکیل تھا۔1973 سے ہر سال اقوامِ متحدہ کی قیادت میں یہ دن ماحولیات کے تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے مخصوص ہے جس کا مقصد ماحولیاتی مسائل جیسا کہ سمندری آلودگی، بے تحاشا آبادی، درجہ حرارت میں اضافہ اور جنگلی حیات کی بقا کے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے۔
 پچھلے چند سالوں سے دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی سے پیدا ہونے والی تباہی اوراس کے اثرات واضع طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک اس کی زد میں آ چکے ہیں پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں ہے جو ماحولیاتی آلودگی سے درپیش مختلف چیلنجزسے نمٹنے میں بہت سی دشواریوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ان چیلنجز کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک بڑی وجہ جنگلات کی کٹائی ہے۔تاہم ماحولیاتی آلودگی اور تبدیلی سے نبرد آزما ہونے کے لئے چھوٹے چھوٹے اقدامات کرکے ہم اس بڑے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں جس میں پلاسٹک پر پابندی،زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگانا، فیکٹریوں اور گاڑیوں کے دھوئیں پر قابو پانا اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنا ہے.ماحولیاتی آلودگی کو ختم کرنے کے لیے اگر ہر شخص انفرادی طور پر اپنے اپنے حصے کی ذمہ داریاں انجام دے تو اس مسئلے کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گُٹیرس اس دن کی مناسبت سے کہتے ہیں کہ اس سال کے عالمی یوم ماحولیات کا موضوع   ”زمین کی بحالی، صحرا اور خشک سالی کی بندش“ ہے۔ انسانیت کا انحصار زمین پر ہے۔ پھر بھی پوری دنیا میں آلودگی، آب و ہوا میں زہریلا پن اور حیاتیاتی تنوع کی تباہی کا سامنا ہے جو صحت مند زمینوں کو صحراؤں میں تبدیل کر رہا ہے۔ وہ جنگلات اور گھاس کے میدانوں کو ختم کر رہے ہیں اور ماحولیاتی نظام، زراعت اور زمین کی طاقت کو کم کر رہے ہیں۔
پاکستان کو بھی اس وقت شدید ماحولیاتی آلودگی کا سامنا ہے اور زمین پر اس کے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ماحولیاتی آلودگی کو کم یا ختم کرنے کی زیادہ تر ذمہ داری ترقی یافتہ ممالک پر عائد ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات سے ترقی پذیر ممالک سخت گھٹن کا شکار ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شمار ہوتا ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور ان کے بھیانک اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جن کا فوری حل سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اگر اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کئے گئے تو ناصرف ملک کے اقتصادی ڈھانچے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے بلکہ اس سے ملک کے ماحولیاتی مسائل بھی کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں مجموعی رویوں میں تبدیلی لا کر گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کی تمام کوششوں میں شامل ہونا ہو گا۔ ہمیں سنجیدگی سے عہد کرنا اور عملی اقدامات اُٹھانے ہوں گے تا کہ ہماری آئندہ نسلیں ایک صاف ستھرے ماحول میں زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکیں۔
ضرورت ہے کہ ایکوسسٹم ریسٹوریشن لانچ کیا جائے گا۔ایکوسسٹم ریسٹوریشن میں درخت لگانا، شہروں کو سرسبز بنانا، باغات کو دوبارہ تیار کرنا،بہتر خوراک اور دریاؤں و ساحلوں کی صفائی شامل ہے۔آنے والی ایک دہائی کے دوران ہر براعظم میں ماحولیات کی بحالی کے حوالے سے خصوصی اقدام کئے جائیں۔ جس سے نہ صرف جانداروں کے لیے قدرتی ماحول بہتر ہو گا بلکہ غربت میں بھی کمی آئے گی اور ماحولیاتی تبدیلی سے بھی بہتر انداز میں نمٹا جا سکے گا۔ کرہ ارض پر موجود ایسے جاندار جو معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں ان کا بھی تحفظ ممکن ہو سکے گا لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو سکے گا جب کرہ ارض پر رہنے والا ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈالے گا۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail