سکندریہ لائٹ ہاؤس
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس (فنار) دنیا کے 7 قدیم عجائبات عالم میں سے ایک ہے۔یہ بحیرہ روم میں تعمیر کیا جانے والا پہلا لائٹ ہاؤس ہے جسے مغربی دنیا سکندریہ کے’’فاروس فنار“ کے نام سے جانتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ سکندریہ کا لائٹ ہاؤس بحیرہ روم کا پہلا روشن مینار ہے۔ یہ بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے قائم کیا گیا تھا۔جو جہازوں کو جہاز رانی کے لیے پُرخطر مقامات کی طرف جانے سے روکتا تھا۔یہ 280 قبل مسیح میں قائم کیا گیا تھا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ سکندریہ کا لائٹ ہاؤس 130 میٹر اونچا تھا۔ یہ مشرقی بندرگاہ کے باہر قائم کیا گیا تھا تاکہ سکندریہ آنے والے جہازوں کی رہنمائی کی جا سکے- چوتھی صدی قبل ازمسیح کے آخر میں سکندریہ شہر کے قیام سے قبل مصری بندرگاہیں دریائے نیل کی شاخوں پر قائم تھیں۔
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس بلند و بالا اور دیوہیکل ہونے کی وجہ سے 50 کلو میٹر کے فاصلے سے نظر آجاتا تھا۔ اس کے بعد ہی بحیرہ روم میں دیگر لائٹ ہاؤس قائم کیے گئے جن میں اٹلی کی بندرگاہ پورٹوس اور سپین کی بندرگاہ لیکورونیا کے لائٹ ہاؤس تعمیر کیے گئے۔سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام یونانی انجینئر سوسٹراٹوس نے انجام دیا تھا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ لائٹ ہاؤس کو فنار کا نام اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ یہ جس جزیرے میں تعمیر کیا گیا تھا اسے ’فاروس‘ کہا جاتا تھا۔ تلفظ میں تبدیلی کی وجہ سے فنار ہوگیا۔ اسے قدیم دنیا کے پہلے لائٹ ہاؤس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کو قدیم دنیا کے 7 عجائبات میں شمار کرنے کے کئی اسباب ہیں۔پہلا سبب تو یہ ہے کہ یہ 130 میٹر کے لگ بھگ اونچا تھا، جس زمانے میں تعمیر کیا گیا تھا اس وقت اتنی اونچی اور دیو ہیکل تعمیر کہیں نہیں تھی۔
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس تین حصوں میں منقسم ہے۔ اس کا ایک حصہ انتظامیہ اور اصطبل کے لیے خاص ہے۔ دوسرا حصہ بالکونی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جبکہ تیسرا حصہ استوانی شکل کا ہے جہاں رات کے وقت جہازوں کی رہنمائی کے لیے الاؤ جلایا جاتا تھا۔علاوہ ازیں بالائی حصے میں دن کے وقت روشنی منعکس کرنے والے آئینے نصب کیے گئے تھے۔ اوپر والے حصے میں سمندر کے دیوتا ’’بوسیڈن“ کا مجسمہ بھی نصب کیا گیا تھا۔سکندریہ کے دیوہیکل مینار کے اندر ڈھلوانی شکل کا عجیب و غریب زینہ بنایا گیا تھا، جہاں سے گھوڑوں کے ذریعے مینار کی بالائی منزلوں تک ضرورت کا سامان پہنچایا جاتا تھا۔اس لائٹ ہاؤس کے بارے میں مورخین اور سیاحوں نے بہت سارے قصے اور کہانیاں قلمبند کی ہیں۔
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ سکندریہ کا مینار کیوں تعمیر کیا گیا؟سکندر اعظم نے سکندریہ شہر 332 قبل مسیح میں آباد کیا تھا۔ اسے بحیرہ روم کی مرکزی بندرگاہ کا رتبہ حاصل ہوگیا تھا۔ بندرگاہ کی بدولت شہر خوب پھلا پھولا اور جلد ہی قدیم دنیا کا اہم شہر بن گیا۔ اس نے اپنی لائبریری کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں بڑا نام کمایا۔ یہ لائبریری دنیا کے ہرعلاقے میں رائج علوم و فنون کے خزانے اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی۔دنیا بھر کے لوگ سیر و سیاحت کے لیے سکندریہ شہر آنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے کی سب سے بڑی رکاوٹ سکندریہ بندرگاہ کے قریب گدلا پانی اور زیرآب چٹانیں تھیں۔ بطلیموس اول نے اس پر قابو پانے کے لیے مینار تعمیر کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔سکندریہ کا روشن مینار 40 برس میں مکمل ہوا۔ یہ 250 قبل مسیح میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔
سکندریہ کے مینار سے متعلق اب بہت ساری معلومات ماضی کا قصہ بن چکی ہیں۔ البتہ یہ سوال ابھی باقی ہے کہ یہ مینار کیسا نظر آتا تھا۔ اس کا کچھ نہ کچھ اندازہ تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں اور سیاحت ناموں کے مطالعے سے لگایا جا سکتا ہے۔ مینار قدیم سکندریہ کی علامت بن گیا تھا۔ اس کی تصویر قدیم کرنسی سمیت مختلف اشیا اور مقامات پر ملتی ہے۔سکندریہ کا روشن مینار ریکارڈ مدت تک قائم رہا۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ 40 منزلوں پر مشتمل انتہائی بلند مینار تھا اوراس کی عمارت شگاف والی تھی۔ سکندریہ کے روشن مینار نے یونانی، رومانی اور مصر کے اسلامی اقتدار میں آ جانے کے بعد اسلامی عرب شہنشائیت کا زمانہ دیکھا۔ اس کی اہمیت اس وقت ماند پڑگئی جب مصر کا دارالحکومت سکندریہ سے قاہرہ منتقل ہوا۔
سکندریہ کا لائٹ ہاؤس کئی بار زلزلوں سے دوچار ہوا البتہ 1330 عیسوی کے دوران مصر میں آنے والے مشہور زلزلے نے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔سکندریہ کے لائٹ ہاؤس کی اصلاح و مرمت بھی کئی بار کی گئی۔1304 عیسوی میں امیر رکن الدین بیبرس نے کرائی۔سکندریہ کے مینار کی جگہ قایتبائی کا قلعہ تعمیر کیا گیا ہے۔ مینار کے کچھ پتھر قلعے کی تعمیر میں استعمال ہوئے جبکہ دیگر سمندر کا حصہ بن گئے۔زلزلوں نے اس عجوبہ مینار کو زمین بوس کر دیا۔