امر بیل

خدا کی قدرت کے نظارے بھی بہت منفرد اور عجائب ہوتے ہیں، کہیں تو کھمبی جیسے خودرَو پودے بھی انسان کیلئے فائدے مند نظر آتے ہیں تو کہیں تھوہڑ کے خطرناک پودے انسان کیلئے تریاق کی حیثیت رکھتے ہیں، پھر آبی حیات کی بات کریں تو ایک عجیب و غریب دنیا، عقل انسانی کو دَنگ کرنے کے لیے موجود ہے۔ لاتعداد پودے نما جانور اور جانور نما پودے اپنی دل کش اور منفرد بناوٹ کے سبب، پوری دنیا کے زمینی نباتات و حیوانات کے لیے گویا مجسم چیلینج بنے ہوئے ہیں۔امر بیل کو آکاس بیل کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے (بعض لوگ اسے آکاش بیل بھی کہتے ہیں)۔آکاش کی معنی آسمان
 کسی ناگِن کی طرح بل کھائی ہوئی، بغیر جڑ اور پتوں کے پھلنے پھولنے والی یہ بیل اکثر ہجر اور عشق پیچاں کی علامت بھی ہے۔آکاس یا آکاش اور امبر، آسمان، خلا اور حدِ نگاہ کو کہتے ہیں۔
چونکہ اس کا تعلق زمین سے نہیں ہوتا اور یہ ہمیشہ اوپر ہی کو چڑھتی ہے۔اسی لیے یہ آکاس بیل کہلائی یعنی اوپر بلند اور آسمان کی طرف جانے والی بیل۔ ویسے لفظ آکاس کا ماخذ سنسکرت سے ہے۔یہ سنسکرت الفاظ (آ) اور (کاس) سے مرکب ہے۔سنسکرت میں آکاس مطلب اطراف اور اکاس کی معنی دکھائی دینا۔ یعنی حدِ نگاہ جہاں تک نظر آنا۔
امربیل ایک باریک زرد رنگ کی بیل ہے جو مختلف درختوں پر چڑھ جاتی ہے اور جلد ہی درخت کے سب حصّوں میں پھیل جاتی ہے، دیکھنے سے اس کی جڑ کا پتہ نہیں لگتا۔ جس درخت پر یہ بیل چڑھ جائے وہ آہستہ آہستہ خشک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔علم نباتات کی رُو سے یہ پیرا سائٹ (Parasite) ایک ایسی قسم کے پودے ہوتے ہیں جو اپنی غذا آپ تیار کرنے کی بجائے کسی دوسرے پودے سے حاصل کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔امر بیل ایک ایسا ہی پودا ہے جس کی جڑیں اتنی باریک ہوتی ہیں کہ کسی کو نظر نہیں آتیں اور یہ جس درخت پر چڑھتی ہیں اس میں داخل ہو جاتی ہیں اور اس مہمان درخت سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں اگر یہ کہا جائے کہ یہ مہمان درخت کیلئے کینسر کی بیماری کی حیثیت رکھتی ہے تو بیجا نہ ہوگا، ان کا رنگ زرد ہوتا ہے اور یہ بے شمار تاروں والے دھاگوں کی جیسی ہوتی ہے۔ یہ بیل درختوں سے لپٹ جاتی ہے اور ان سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے مہمان پودے کی افزائش رک جاتی ہے اور یہ پروان چڑھتی رہتی ہے۔ یہ بیل جس درخت کو چمٹ جائے اسے تھوڑے ہی عرصے میں سکھا دیتی ہے۔ بغیر جڑ اور پتوں کے پھلنے پھولنے والی یہ بیل سائنسی اصطلاح میں Parasite پودا کہلاتا ہے، پیرا سائٹ کا لفظ لاطینی اور یونانی لفظ کا مرکب ہے، کہتے ہیں کہ سولہویں صدی میں ایک شخص ایسا بھی تھا جو خود کچھ نہیں کرتا تھا بلکہ دوسروں کے کھانوں میں شریک ہو جاتا تھا۔
انگریزی کے محاورے میں ایسے شخص کو بھی Parasite کہا جاتا ہے جو دوسروں پر انحصار کرتا ہے یا اُن سے بلا معاوضہ و صلہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ اردو زبان میں ایسے شخص کو مطلب شناس، مطلب پرست اور ابن الوقت کہا جاتا ہے اور موقع کے لحاظ سے طفیلی بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان میں اسے مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے سندھ میں اسے ''بے پاڑی ول'' یعنی بنا جڑ والی بیل کہتے ہیں۔
بیری اور کیکر کے درختوں پر یہ بیل اکثر نظر آتی ہے۔ امر بیل میدانی علاقوں میں باآسانی دیکھی جا سکتی ہے۔دیکھنے میں خوبصورت نظر آنے والی امر بیل درختوں اور فصلوں کے لیے نقصان دہ تصور کی جاتی ہے کیونکہ اگر اسے کسی درخت کی شاخ پر ڈال دیا جائے تو سپرے اور پانی کے بغیر یہ پھیلنا شروع ہو جاتی ہے اور چند ہی ہفتوں میں پورے درخت کو چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ امر بیل کے درخت پر پھیلتے ہی درخت سوکھنا شروع ہو جاتا ہے تاہم یہ بدستور ہری بھری نظر آتی ہے۔امر بیل زیادہ تر خاردار درخت اور پودوں پر تیزی سے بڑھتی ہے۔ خاردار درختوں میں کیکر، بیری، شہتوت، انگور کی بیل اور انار کے پودے سمیت گلاب، کپاس، کماد و دیگر فصلیں اس کا شکار بنتی ہیں۔کاشتکاروں کو اکثر و بیشتر امربیل کے باعث نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
محکمہ زراعت کے پاس امربیل کو تلف کرنے کے لیے کسی قسم کا سپرے موجود نہیں ہے۔اس کو تلف کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جیسے ہی یہ نظر آئے اسے اتار دیا جائے اگر ایسا ممکن نہیں تو اس پر پانی کا چھڑکاؤ کریں یہ جلدی ہی سوکھ جائے گی، جہاں بارشیں ہوتی ہیں یہ اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔یہ کوئی پودا، فصل یا جڑیں بوٹی نہیں ہے اس لئے اسے تلف کرنے کیلئے کوئی اسپرے یا ادوایات کام نہیں کرتیں 
 آکاس بیل کوٹ پیس کر سر میں لگانے سے، اور اس کے پانی سے سر دھونے سے، بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ اس کا استعمال پیٹ کی صفائی، خون کی صفائی، وَرموں کے علاج، ہچکیاں روکنے کے لیے بھی مختلف طریقوں سے ہوتاہے۔ سر درد، دردِ زہ، ہڈیوں کی شکست و ریخت، بخار، گردے کا درد، جگر کے امراض، اسہال، ذیابیطس، پیٹ کا درد، پیٹ کے کیڑے اور جوڑوں کا درد نیز زخموں کو جلد مندمل کرنے میں یہ مفید بیل استعمال ہوتی ہے۔ یہ بیل جس پودے پر اگتی ہے، اُسے تو زندگی سے محروم کر دیتی ہے، مگر اس کے ننھے ننھے سفید، گھنٹی نما پھول، اسے بیج اور پھل فراہم کرتے ہیں جن کا بطور دوائی استعمال حکمت میں ہوتا ہے۔
 

Daily Program

Livesteam thumbnail