مبارک مدر لویئزہ تنکانی(خدا کی خادمہ)
عالمگیر کلیسیا 31 مئی کو مدر لویئزہ تنکانی کی عید مناتی ہے۔ مدر لویئزہ تنکانی وقت کی پکار سننے والی ایسی دوشیزہ جس نے کلیسیا کی مخالف قوتوں کو چیلنج کیا اور اپنے مضبوط ایمان اور بڑی دانش مندی سے ان پر کامیابی حاصل کی۔ آپ 25 مارچ 1889 کو اٹلی کے ایک چھوٹے سے شہر میں پیدا ہوئیں کیتھولک کلیسیا 25 مارچ کو ہی عید بشارت مناتی ہے۔ خوشیوں کے اس بابرکت دن جب مدر لویئزہ تنکانی کی پیدائش ہوئی تو پورے خاندان نے اس بات پر غور و خوص کیا اور مزید خوشی منائی کہ مدر لویئزہ تنکانی بھی 25 مارچ کو پیدا ہوئی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا نے اسے خاص منصوبے کے تحت پیدا کیا ہے۔پھر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی تو یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی گئی کہ اْسے واقعی خدا نے انجیل کی بشارت، نوجوانوں کو کلیسیا اور خدا کی طرف راغب کرنے اور اْن کے ذہن کو علم اور اخلاقی قدروں کے نور سے منور کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔وہ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئی جس کی جڑیں ایمان اور علم دونوں میں مضبوط تھیں۔ والدین کی تربیت نے انہیں با اخلاق اور خوش طبع شخصیت کے طور پر پروان چڑھایا۔علم کے آسمان پر اْڑنے کے لیے انہیں مضبوط پر عطا کیے۔چونکہ مدر لویئزہ تنکانی کا بچپن بولونیامیں گزرا، یہ شہر علم و ثقافت کی وجہ سے تو مشہور تھا ہی مگرمدر لویئزہ تنکانی کے لیے اس شہر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہاں دومینکن راہب قیام پذیر تھے جس کی طرزِ زندگی یعنی دْعا، روحانیت، مطالعہ اور تبلیغ نے اسے بے حد متاثر کیا۔ یوں اوائل عمری ہی سے اْن کے اندر عارفانہ مزاج پروان چڑھنے لگا۔مدر لویئزہ تنکانی کی والدہ مریم نہایت شریف اور دانشمند گھریلو خاتون تھی جبکہ والد لاطینی اور یونانی زبانوں کے ماہر پروفیسر تھے اور محکمہ تعلیم میں اعلی عہدے پر فائز تھے۔یہ اپنے باپ کی بہت لاڈلی بیٹی تھی اور گھر میں سب سے چھوٹی تھی۔ اس لیے وہ اکثر اپنے باپ کے پاس بیٹھ کر بہت ساری گفتگو سنتی اور ان کی فکر مندی پر پریشان بھی ہوتی۔ وہ کسی سے بغیر کچھ کہے اپنے دل ہی دل میں ان باتوں پر غور کرتی اور منصوبے بناتی کہ میں اس سلسلے میں کیا کر سکتی ہوں۔ مدر لویئزہ تنکانی نے خاص طور پر مقدسہ مریم کو اپنا رازدار بنا لیا تھا وہ اپنے ذہن میں اْبھرنے اور ڈوبنے والی سوچوں اور ارادوں کو دن کے اختتام پر مقدسہ ماں کے سامنے پیش کر کے دْعا مانگتی۔ مقدسہ مریم کی حلیمی اور تابعداری پر غور کرتی اور یہ بھی سوچتی کہ یہ کیسے ہوگا؟وہ فرشتے کے جواب پر بھی سوچتی کہ حق تعالی کی قدرت یہ کرے گی۔اس کے بعد سوچ کی کڑی مقدسہ مریم کی خدمت پر جا کر رْکتی اور وہ ان باتوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے آخر میں مدر لویئزہ تنکانی یونیورسٹی کی طلبہ تھی اور فری میسن تحریک پوری اٹلی میں زور پکڑ چکی تھی۔جس کا مقصد مسیحی معاشرے کو جڑ سے اْکھاڑنا،مسیحی خاندانی زندگی کو بگاڑنا اور مسیحی نوجوانوں اور بچوں کو تعلیم سے محروم رکھنا تھا۔ مدر لویئزہ تنکانی ان سب مشکلات کو سمجھتی تھیں۔ اس لیے اْنہوں نے سوچا کہ اب اگر کچھ نہ کیا گیا تو پھر کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہ لوٹے گا۔ اْنہوں نے بڑی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنے آپ کو پیش کریں گی۔ اس کے دل سے آواز آتی کہ میں ان معصوم ذہنوں کو شرارت کی آماجگاہ نہیں بننے دوں گی۔ وہ اپنے دل اور ذہن میں نوجوانوں کو اس طرح دیکھ رہی تھی جیسے وہ ان بھیڑوں کی مانند ہوں جن کا چرواہا نہ ہو۔ ان حالات میں اْن کا دل پکار اْٹھا کہ میں کلیسیا کو نوجوان نسل سے محروم ہونے نہیں دوں گی۔ کیونکہ وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ سیاست ہو یا کوئی بھی عملی میدان کامیابی اْن رہنماؤں کی ہوتی ہے جو نوجوانوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں۔مدر لویئزہ تنکانی نے کلیسیا کے برے حالات کو نہ صرف آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا بلکہ وقت کی یہ پکار اْن کے دل کی گہرائیوں تک اتر گئی اور پھر یہ سوچ ایک بلاہٹ بن کر اْن کے ذہن میں اْبھری۔ اور یہ فیصلہ ہوا کہ حالات کے مطابق نوجوانوں کو منظم کیا جائے اور انہیں نئی تحریک دی جائے۔ اس کے لیے اساتذہ کی تربیت ضروری تھی تاکہ فری میسن کے تقاضے پورے کیے جا سکے کیونکہ انہیں خامیوں کی آڑ میں راہبوں اور راہبات کو سکولز سے نکالا جا رہا تھا۔ مدر لویئزہ تنکانی کا دماغ ہمیشہ متحرک رہتا تھا اس لیے انہوں نے اپنے ذہن میں ایک منصوبہ بنایا کہ ایک ایسا سکول کھولا جائے جہاں تمام مشنری اداروں کی سسٹرز کو دعوت دی جائے کہ جن سسٹرز کی تعلیم مکمل نہیں وہ اسکول میں ا ٓکر اپنی تعلیم مکمل کریں،چاہے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں اور انہوں نے کہیں سے بھی تعلیم چھوڑ دی ہو۔پھر انہوں نے اس کا ذکر اپنے تمام ساتھیوں اور دوستوں سے کیا اور سب نے خوشی سے اْن کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ اْن کے گھر والوں نے بھی مدد کی۔ البتہ مدر لویئزہ تنکانی کسی راہبانہ جماعت میں شامل ہو کر یہ سب کچھ کرنا چاہتی تھیں۔ انہوں نے بہت سے کانوینٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن انھیں کوئی بھی ایسی جماعت نہ ملی جہاں وہ سسٹر بن کر اپنے منصوبوں کے درس و تدریس کے ذریعے خدمت کریں۔جب انہوں نے اپنی روحانی رہنما سے اس بات کا ذکر کیا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ جس چیز کا وجود نہیں اسے وجود میں لایا جا سکتا ہے۔ آپ خود کیوں ایسی مذہبی جماعت کی بنیاد نہیں رکھتی جہاں آپ نوجوانوں کو مذہبی زندگی کے علاوہ اس قسم کے مشن کے لیے تیار کریں۔ مدر لویئزہ تنکانی نے اْن کی بات مانتے ہوئے انہی کی مدد سے ایک مذہبی جماعت کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یہ 1917 کی بات ہے آخر کار انتھک کوششوں کے بعد 28 اگست 1924 کو نئی جماعت کی بنیادمدر لویئزہ تنکانی اور اْن کی چار ساتھیوں کی پہلی عہد بندی سے رکھی گئی۔ یہ عہد بندی سانتا سبینا کے گرجا گھر میں مقدس دومینک کے چھوٹے سے چیپل میں ہوئی۔
اس نئی جماعت کا نام یونین آف سینٹ کیتھرین آف سی اینا رکھا گیا کیونکہ مدر لویئزہ تنکانی نے بھی مقدسہ کیتھرین کی طرح کلیسیا کی اصلاح کی ذمہ داری سنبھالی۔اس طرح تنکانی کے بے لوث جذبوں پر خداوند نے اپنی رحمت کی بارش برسا دی اور اْن کے جذبے کو دیکھ کر بہت سی لڑکیاں اْن کی ہم خیال بن گئیں۔ انہوں نے جب پاپا ئے اعظم پائس گیارویں کے سامنے اپنی جماعت کا آئین اور منشور پیش کیا تو وہ بے ساختہ پکار اْٹھے اس کا نام ”سکول مشنریز“ہوگا۔ یوں آج تک اس جماعت کی سسٹرز صاحبات زیادہ تر اپنے نام کا یہ اعزازی حصہ ہی استعمال کرتی ہیں کیونکہ پاپائے اعظم نے مدر لویئزہ تنکانی میں تدریس کے ذریعے کلیسیا اور نوجوانوں کی خدمت کا جذبہ دیکھ کر یہ نام دیا تھا۔مدر لویئزہ تنکانی نے سب سے پہلے ایک ایسے سکول کی بنیاد رکھی جہاں راہبات اپنی تعلیم مکمل کر سکیں انہوں نے اس سکول کا نام Sede Sapienzaیعنی تخت دانائی رکھا۔ اس کے بعد ایک ایسے کالج کی بنیاد رکھی جہاں نوجوان راہبات کو سکولز میں پڑھانے کی ٹریننگ دی جاتی تھی اور آج یہ کالج یونیورسٹی کے درجے تک پہنچ گیا ہے۔ یہ کالج مقدسہ مریم کے نام پر تھا Maria Assunta
یعنی عروج مریم۔ مدر لویئزہ تنکانی کی سوچوں اور فکروں نے عملی میدان ڈھونڈے اور بے شمار لوگوں کو علم کی روشنی سے منور کیا۔مدر لویئزہ تنکانی اپنی عمر کے آخری حصے میں سرطان جیسے موزی مرض میں مبتلا ہو گئی اور آخر کار 31 مئی 1976 کو مقدسہ مریم کی الیصابات سے ملاقات کی عید کے دن اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔