لوئی بریل (انگلیوں کو بینائی دینے والا شخص)
یہ 1816ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ ایک سات سالہ بچہ برمے کے ذریعے کسی چیز میں سوراخ کر رہا تھا۔ اچانک ہاتھ پھسلنے سے برما آنکھ میں جا لگا۔ آنکھ میں زخم ہو گیا۔ انفیکشن بڑھتا گیا۔ علاج کرنے کی حتی الامکان کوشش کی گئی لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ غرض مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ کچھ عرصہ بعد دوسری آنکھ بھی متاثر ہو گئی۔ 1819ء تک دونوں آنکھوں کی بینائی ختم ہو گئی۔ بچے کے والدین بہت پریشان ہوئے۔ وہ اسے پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے لیکن یوں لگتا تھا سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں۔ انہیں کسی نے فادر ویلنٹائن آوی کے پاس جانے کا مشورہ دیا جو نابینا بچوں کے لیے ”رائل انسٹیٹیوٹ فار بلائنڈز“ چلا رہا تھا۔ تھوڑی سی کوشش سے اس بچے کو داخلہ مل گیا۔ بچہ محنتی، ذہین اور قابل تھا لیکن اسے یہ مشکل درپیش تھی کہ وہ کتب سے بذات خود، تنہا استفادہ نہیں کر سکتا تھا۔ ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا، کیوں نہ نابیناوں کے لیے بھی کوئی تحریر ہو جسے وہ چھو کر پڑھ سکیں۔ یہ بچہ لوئی بریل تھا۔ جو گھوڑے کے اصطبل میں کام کرنے والے ایک سرکاری ملازم کے گھر میں پیدا ہوا۔ اس کی تاریخ پیدائش 4جنوری 1809ء بتائی
جاتی ہے۔ یہ کوئپوری (فرانس) کا رہنے والا تھا۔ دس سال کی عمر میں اس نے رسمی
تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور محض پندرہ سال کی عمر میں وہ کارنامہ سرانجام دیا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا نے اسے سو عظیم موجدوں کی فہرست میں جگہ دے دی۔
ہوا یہ کہ اس نے اپنے اس تخیل کا تذکرہ اپنے کئی دوستوں سے کیا۔ کسی نے مذاق اڑایا اور کسی نے حوصلہ افزائی کی۔ بالآخر ایک نے اسے کیپٹن چارلس باربر کے بارے میں بتایا جو فوج سے سبک دوش ہو چکا تھا لیکن ایک طرز تحریر یا زبان کا موجد تھا جو فوجیوں کو اندھیرے میں پڑھنے مدد دیتی تھی۔ یہ اس کے پاس پہنچا اور اپنے خیال کا اظہار کیا۔ کیپٹن چارلس نے اس کی حوصلہ افزائی کی لیکن یہ بھی بتایا کہ فوجیوں کے لیے جو زبان استعمال ہوتی ہے اس میں ذخیرہ الفاظ بہت محدود ہے کیوں کہ ایک تو پیغام بہت مختصر ہوتا ہے دوسرا صرف ایک ہی ادارے کے لیے مختص ہے، اس لیے اس میں اصطلاحی و خفیہ الفاظ کی بھرمار ہے جو عام آدمیوں کے سمجھنے کی بات نہیں ہے۔لیکن بریل کو اس شخص سے کافی مدد ملی۔ بعد میں اس نے ترقی دے کر اس زبان میں کئی مفید اضافے اور زیادتیاں کیں۔ جس سے یہ انتہائی عام فہم ہو گئی۔ 1824ء میں اس نے دنیا کے سامنے اس نئی زبان کو پہلی بار رکھا۔ جس کا نام ”بریل سسٹم“ رکھا گیا تھا۔ ہمیشہ کی طرح اہل دنیا نے اسے دیوانہ قرار دیا اور اس کی بنائی زبان کو مسترد کر دیا۔ یہ شخص 1852ء میں فوت ہو گیا۔ لیکن اس کا بنایا ہوا نظام
نابینا افراد میں مقبول ہوتا رہا۔ تا آں کہ دنیا نے اسے اپنا لیا۔ 20جون 1952ء کو حکومت فرانس نے اس کی باقیات نکالیں اور پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر دوبارہ دفن کیں۔ تب سے اب تک ہر سال 4جنوری کو ”نابیناو?ں کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے۔ امریکی خلائی ادارے ”ناسا“ نے ایک سیارچے کو ”9969بریل“ کا نام دے کر اس عظیم انسان کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی یاد میں امریکہ، بیلجیم، اٹلی اور بھارت نے اپنے اپنے ملک میں کرنسی نوٹ جاری کیے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ یہ نابیناشخص چھ سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب The Summary of French History Century by Century کا مصنف بھی ہے جو اس نے 1837ء میں لکھی۔
بریل سسٹم ایک ایسا نظام ہے جس میں ابھرے ہوئے حروف کو چھو کر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ حروف، حروف نہیں ہوتے بلکہ ابھرے ہوئے چھ نقطے ہوتے ہیں جنہیں مخصوص طریقے سے ڈال کر حروف یا ہندسوں کی علامات بنائی جاتی ہیں۔
ایک بچے نے اپنی محنت، لگن اور جہد مسلسل سے وہ کارنامہ سرانجام دے دیا جس سے دنیا بھر کے 3کروڑ 90لاکھ نابینا افراد فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسانی انگلیاں بھی بینائی رکھتی ہیں، جو صفحے کو چھو کر الفاظ کی کڑواہٹ یا مٹھاس، خوب صورتی یا بدصورتی کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہیں۔ سچ کہتے ہیں سچی لگن انسان کو مقصد تک ضرور پہنچا دیتی ہے۔ بس ہمت، جرات، مستقل مزاجی اوربے لوثی جیسے اوصاف کا ہونا ضروری ہے۔