رانا رتن سنگھ سوڈھا(عظیم بہادر)
سن1850سندھ کے صحرا تھرپارکر کے ایک گاؤں عمرکوٹ کے حکمران راجپوت رانارتن سنگھ سوڈھا نے برطانیہ کی جانب سے غریب لوگوں پرلگائے گئے ناجائز لگان کے خلاف ایک بے مثال جدوجہد کی۔جو برطانیوی حکومت کی نظرمیں بغاوت ٹھری۔رانارتن تھر کے صحراؤں میں چھپ کر برطانیہ کے خلاف اپنی کارروائیاں کرتا رہامگر آخر کار اسکو پکڑ کر قید کر لیا گیا۔
اگرچہ ملکہ وکٹوریہ نے علاقے کے بااثر لوگوں کی سفارشات پر اس کو معاف کردیا مگر رانا رتن اپنے مؤقف پر ڈٹا رہا کہ غریب لوگوں پر سے اس غیر منصفانہ ٹیکس کا خاتمہ کیاجائے۔ دوسری طرف انگریزوں نے بھی رانا رتن سنگھ کے تیور اور کاروائیوں کے اثرات کوسمجھتے ہوئے غریبوں کے عظیم بہادر کو سندھ کی دھرتی کے تمام لوگوں کے لئے ایک عبرت کی مثال بنانے کا تہیہ کر لیا۔
انہوں نے عمر کوٹ کے مشہور قلعے کے بیچوں بیچ رانارتن کو پھانسی لگانے کے لئے پھانسی گھاٹ کی تیاری شروع کردی تاکہ تمام لوگ اس کے انجام کو دیکھ کر چپ چاپ ٹیکس دینے کے لئے تیار ہو جائیں۔ جب پھانسی گھاٹ تیار ہوا تو تمام آس پاس کے گاؤں میں اس بات کا اعلان کیا گیا اور رانا کو اْن کے سامنے آہستہ آہستہ پھانسی گھاٹ کی اْونچی سیڑھیاں چڑھا کرپھانسی کے پھندے کے نیچے کھڑا کیا گیا اور آخری خواہش دریافت کی گئی جس پررانا نے اپنے بندھے ہاتھوں کو کھولے جانے کا کہا۔ ہاتھوں کے آزاد ہوتے ہی اس نے انتہائی بااعتمادی سے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دے کر اْوپر کی جانب کیا۔مونچھوں کو تاؤ دینا برصغیر کے لوگوں کا ایک ایسا انداز ہے جس سے اظہار کیا جاتا ہے کہ انسان کس قدر دلیر اور بے خوف ہے۔ یہ ایک انتہائی درجہ کی خود اعتمادی اور بہادری کی علامت سمجھا جاتا ہے۔راجپوت رانا رتن سنگھ سوڈھا کو اس دلیرانہ انداز سے پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالتے دیکھ کر آزادی کاجذبہ غیر مرئی فتح کے احساس کے ساتھ اْبھر کر سندھ کی دھرتی کی ہواؤں اور عوام میں پھیل گیا۔ اس انداز نے اْن کی روحوں کو غلامی سے نجات دلا دی۔
اس واقعہ پر سندھ کا مشہور لوک گیت ”مور تو ٹلے رانا“ تخلیق ہوا جس میں اس بے مثل تھرپارکر کے دلیر اور بہادر کی موت پر ماتم کر کے دْکھ غم کا مرثیہ نہیں کہا گیا بلکہ یہ خوشی کا گیت ہے اور عموماً بچے کی پیدائش کے موقع پر گایا جاتا ہے۔اس مرثیہ میں آنگن میں کھیلتے ننھے بچے کو برسات میں بھیگتے مور کے رقص سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس گیت کے اہم بول میں ”ہزاروں رانا رتن جیسے دلیر اور بہادر بچے سندھ کی دھرتی پر پیدا ہونے کا ذکر کیا گیا ہے:
”رانا تومان راج تھیندا،رانا تومان لکھ تھیندا“
کا مطلب بھی یہی ہے کہ رانا، تمہاری ہی حکومت ہوگی اور تمھارے جیسے ہزاروں ہونگے۔یہ گیت تھر کے صحرائی ماحول کی خوشیوں کا حسین اور لازوال حصہ بن گیا ہے اور رانا رتن سنگھ سوڈھا کی بہادری اور غریبوں کے حق میں جدوجہد و قربانی کی یاد دلاتا ہے۔اپنی جان ایک عظیم کام کیلئے قربان کرنے والا رانا رتن تاریخ میں ہمیشہ ایک عظیم بہادر کے نام سے یاد کیا جائے گا۔