تقدس مآب بشپ جان جوزف
آپ 15 نومبر 1929 کو خوش پورمیں بابو جوزف کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم خوش پورسے ہی حاصل کی۔آپ بچپن سے ہی بڑے ہونہار تھے۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد سمندری چلے گئے۔1960 میں پہلے پاکستانی کاہن بنے۔1963 میں سینٹ تھامس یونیورسٹی اٹلی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔آپ نے گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے اردو میں ایم اے پاس کیا۔1977 سے 1980 تک کرائسٹ دی کنگ سیمنیری کراچی میں تھیالوجی کے پروفیسر رہے۔1980 میں فیصل آباد کے بشپ منتخب ہوئے۔آپ نے بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا جن میں خدا کا جادوگر،خدا کی خادمہ، یہی ہے عبادت، ساکرامنٹ اور بچوں کی انجیل بڑی مقبول ہوئیں۔
آپ کیتھولک بائبل کا ترجمہ کرنے والی کمیٹی میں شامل تھے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ اور پاکستان پریس ایسوسی ایشن کے بانی اور ادارہ ادبیات کے چیئرمین تھے۔ آپ بڑے انسان دوست اور دوسروں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے تھے۔ شناختی کارڈ میں مذہب کے خانے کے خلاف تحریک میں آپ نے تحریک کی قیادت کی 295-B اور-C 295 کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتے رہے اور اسی مقدمے میں منظور مسیح کی شہادت پر آپ نے منظور مسیح کے پاؤں چوم کر اعلان کیا کہ آئندہ اگر کسی مسیحی کو 295-B اور-C 295 میں سزائے موت ہوئی تو سب سے پہلے میں اپنی جان کا نذرانہ دوں گا۔ انہوں نے اپنے اس قول کو پورا کر کے دکھایا۔27 اپریل 1998 کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساہیوال رانا عبدالجبار ڈوگر نے تحصیل عارف والا کے ایک مسیحی ایوب مسیح کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کا حکم سنایا۔
آپ نے بڑی کوشش کی کہ اس قانون کو ختم کروایا جا سکے لیکن کامیابی نہ ہوئی ہر طرف سے مایوس ہو کر 26 مئی 1998 کو اْسی عدالت کے احاطے میں بشپ جان جوزف نے یہ الفاظ کہے ”ایوب مسیح آپ کے لیے میں پہلی قربانی دے رہا ہوں“ اور اپنے ذاتی پستول سے اپنی کنپٹی پر گولی چلادی اور شہادت کا درجہ حاصل کیا۔ اپنی شہادت سے ایک روز قبل بشپ جان جوزف نے ایک کھلے خط میں بشپ صاحبان، این جی اوز،ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، مسیحی، مسلمان، سکھ، ہندو اور تمام اقلیتوں کے مظلوم افراد اور ہمدرد انسانوں سے متحد ہوکر 295-B اور-C 295 کو ختم کرانے کیلئے جو جنرل ضیاء الحق نے آئینی ترمیم کے ذریعے مسلط کی، اس کے خلاف کوشش کرنے کی اپیل کی۔
کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ایسے عظیم صدیوں بعد ہی پیدا ہوتے ہیں جو خود سے زیادہ دوسروں کا سوچتے اور فکر کرتے ہیں۔