سیب کے درخت کی غیر مشروط محبت
بہت عرصہ پہلے سیب کا ایک بڑا درخت تھا۔ ایک چھوٹا لڑکا ہر روز اس کے ارد گرد آکر کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وہ درخت کی چوٹی پر چڑھتا، سیب کھاتا، اور اس درخت کے سائے میں سو جاتا۔
اسے درخت سے پیار تھا اور درخت کے ساتھ کھیلنا پسند کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، چھوٹا لڑکا بڑا ہو گیا اوراب اْس نے درخت کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دیا۔
ایک دن لڑکا واپس درخت کے پاس آیا اور دیکھا کہ درخت اْداس تھا۔
لڑکے نے پوچھا:کیاہوا؟اْداس لگ رہے ہو؟
درخت نے جواب دیا:اب تم میرے ساتھ کیوں نہیں کھیلتے؟
میں اب بچہ نہیں رہا، اب میں درختوں کے گرد نہیں کھیل سکتا۔ لڑکے نے جواب دیا۔
مجھے کھلونے چاہیے اور مجھے انہیں خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے۔
معاف کرنا مجھے، میرے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن تم میرے سارے سیب بیچ سکتے ہو۔ تو اس طرح تمہیں پیسے مل جائیں گے۔
یہ سنتے ہی لڑکا بہت پرجوش ہوا۔ اْس نے درخت کے سارے سیب پکڑ لیے اور خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔ لڑکا سیب لینے کے بعد کبھی واپس نہیں آیا۔ درخت پھر سے اْداس ہوگیا۔
ایک دن وہ لڑکا جو اب آدمی بن چکا تھا واپس آیا۔اْسے دیکھتے ہی درخت بے حد خوش ہو گیا۔اور اْس سے کہاآؤ اور میرے ساتھ کھیلو۔
میرے پاس کھیلنے کا وقت نہیں ہے۔ مجھے اپنے خاندان کے لیے کام کرنا ہے۔ ہمیں پناہ کے لیے گھر چاہیے۔ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟
درخت بولامیرے پاس کوئی گھر نہیں ہے ہاں لیکن تم اپنا گھر بنانے کے لیے میری شاخیں کاٹ سکتے ہو۔ چنانچہ وہ شخص درخت کی تمام شاخیں کاٹ کر خوشی خوشی چلا گیا۔ درخت اسے خوش دیکھ کربے خوش ہوا لیکن اس کے بعد وہ شخص کبھی واپس نہیں آیا۔ درخت پھر تنہارہ گیا۔
ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں وہ آدمی پھرواپس آیا اس پر درخت ایک مرتبہ پھر سے خوش ہوا۔
اس مرتبہ درخت نے پھرکہا:آؤ اور میرے ساتھ کھیلو!
اس پر اْس آدمی نے جو اب دیاکہ اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں۔ میں آرام کرنے کے لیے کشتی رانی جانا چاہتا ہوں۔ کیا تم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟
درخت نے کہا: ہاں تم اپنی کشتی بنانے کے لیے میرے تنے کا استعمال کرسکتے ہو۔
چنانچہ اْس شخص نے کشتی بنانے کے لیے درخت کے تنے کو کاٹ دیا۔اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔
آخر کار وہ شخص کئی سالوں کے بعد پھر سے واپس آیا۔
اس بار درخت نے کہا:معاف کرنا، میرے لڑکے لیکن میرے پاس اب تمہارے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ کے لیے مزید سیب بھی نہیں۔ کوئی مسئلہ نہیں، میرے پاس کاٹنے کے لیے دانت بھی نہیں ہیں۔آدمی نے جواب دیا۔
درخت نے روتے ہوئے کہا: ”میں تمہیں کچھ نہیں دے سکتا، بس میری مرتی ہوئی جڑیں رہ گئی ہیں۔“
اس آدمی نے جواب دیا:مجھے اب زیادہ ضرورت نہیں، بس آرام کرنے کی جگہ چاہئیے۔میں ان تمام سالوں کے بعد اب میں تھک گیا ہوں۔
اچھا! پرانے درخت کی جڑیں ٹیک لگانے اور آرام کرنے کی بہترین جگہ ہیں۔
آؤ میرے ساتھ بیٹھ کر آرام کرو۔آدمی بیٹھ گیا اور درخت خوش ہوا اور آنسوؤں کے ساتھ مسکرا دیا۔یہ تو سیب کی کہانی تھی۔
ہمارے والدین بھی درخت جیسے ہوتے ہیں۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں اپنے ماں باپ کے ساتھ کھیلنا پسند تھا۔ جب ہم بڑے ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس صرف اس وقت آتے ہیں جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہو یا جب ہم مشکل میں ہوں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ والدین ہمیشہ موجود رہیں گے اور آپ کو خوش کرنے کے لیے وہ سب کچھ دیں گے۔
آپ کو لگتا ہے کہ لڑکا درخت کے ساتھ ظالم ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ دورِحاضرہ میں ہم سب اپنے والدین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ ہم انہیں معمولی سمجھتے ہیں۔ ہم اْن کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔اس کہانی میں والدین سیب کے درخت کی طرح، اپنے بچوں سے غیر مشروط محبت کرتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ تاہم، جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں، اپنے والدین سے دْور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ صرف اْس وقت ان کے پاس آتے ہیں جب کسی چیز کی ضرورت ہو۔ لیکن ہمیں اپنے والدین کی قرباینوں اور محبتوں کی قدر کرنی چاہیے جو وہ ہمارے لیے اپنی زندگیاں گزر دیتے ہیں۔اْن کی قدر کرلیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔