سہارے کی بیساکھی چھوڑئیے!
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایران کا ایک بادشاہ سردیوں کی شام جب اپنے محل میں داخل ہو رہا تھا تو ایک بوڑھے کو دیکھا جو محل کے صدر دروازے کے پاس پُرانی اور باریک پوشاک میں بیٹھا ہواتھا۔
بادشاہ نے اُس کے قریب اپنی سواری کو رْکوایا اور اُس ضعیف سے پوچھنے لگا:
سردی نہیں لگ رہی؟
بزرگ نے جواب دیا: بہت لگتی ہے حضور!
مگر کیا کروں، میرے پاس گرم کپڑے نہیں ہیں اِس لئے برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بادشاہ نے کہا:میں ابھی محل کے اندر جا کر اپنا ہی کوئی گرم جوڑا تمہیں بھیجتا ہوں۔ بزرگ نے خوش ہو کر بادشاہ کو فرشی سلام کہے اور بہت تشکّر کا اظہار کیا۔
لیکن بادشاہ جیسے ہی گرم محل میں داخل ہوا، بوڑھے کے ساتھ کی ہوئی بات بھول گیا۔
صبح دروازے پر اُس بوڑھے کی اکڑی ہوئی لاش ملی اور قریب ہی مٹّی پر اُس کی یخ بستہ انگلیوں سے لکھی گئی یہ تحریر بھی:
بادشاہ سلامت!میں کئی سالوں سے سردیوں میں اِسی پْرانی اور باریک پوشاک میں جی رہا تھا۔مگر کل رات آپ کے گرم لباس کے وعدے نے میری جان نکال دی۔
اس کے علاوہ باقی لوگوں کے لئے بھی لکھا کہ سہارے انسان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔اس لئے اپنی طاقت کے بل بوتے پرجینا شروع کیجئے۔ خدارا سہاروں کی بساکھیاں چھوڑکر خودپر ہی بھروسہ رکھیں۔