دْور اندیشی کی طاقت
اسے پڑھنے کاجنون تھالیکن گھریلو حالات ایسے تھے کہ وہ اپنے لیے کتابیں نہیں خرید سکتا تھا۔ یہ لگن اسے مسٹرجیمس اینڈرسن کی لائبریری تک لے جاتی جہاں وہ گھنٹوں مطالعہ میں مصروف رہتا۔اس نے پختہ عزم کیا تھاکہ مجھے جب بھی موقع ملا میں طلبہ کے لیے لائبریری کھولوں گا۔اس لڑکے کا نام اینڈریوکارنیگی تھاجسے خدانے دوراندیشی کی بھرپور صلاحیت سے نوازا تھا۔وہ زندگی میں کچھ بڑاکرنا چاہتاتھا۔اس نے ٹیلی گراف کمپنی میں ملازمت اختیا ر کی۔جس کے بعد ریل کے لیے پٹریاں بچھانے والی کمپنی میں کام کرنے لگا۔وہ اپنے سپروائزر کو دیکھتاتو سوچتا کہ اس میں اور مجھ میں کیا فرق ہے؟یہ سوچ اسے آگے بڑھنے پر اُکساتی اور اس بنیاد پرایک دن وہ سپروائزر بن گیا۔کچھ عرصہ بعد اس کے پاس کافی پیسے جمع ہوگئے تو وہ مختلف کمپنیو ں میں سرمایہ کاری کرنے لگا۔
صاحبِ بصیرت انسان اپنے آج کے عمل کی بنیاد کل پہ رکھتا ہے۔ بنیادی طورپر انسان جلد باز ہے۔وہ جلدی نتائج چاہتاہے جس کی وجہ سے بعض اوقات اسے نقصان بھی اْٹھاناپڑتاہے۔اس کے برعکس بصیرت والے شخص میں صبرپایاجاتاہے۔ کیو نکہ صبر سے جوفوائد ملتے ہیں وہ جلد بازی سے نہیں ملتے۔
اس نے اندازہ لگالیا تھا کہ مستقبل میں مسافر ایسی ٹرینوں کو ترجیح دیں گے۔چنانچہ اس نے ریلو ے میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی۔ اندازہ درست ثابت ہوا اوراینڈریونے خوب پیسہ کمایا۔1865ء میں اس نے Keyston Bridge نامی کمپنی بنائی۔اس کمپنی نے پہلی بار نہروں پر اسٹیل کے پل بناکر کارنامہ سرانجام دیا۔
اسی وجہ سے اسٹیل کو مقبولیت ملی اور کمپنی ترقی کرنے لگی۔آپ اینڈریوکارنیگی کی دوراندیشی کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ اس نے خام مال سے لے کر اسٹیل تیار ہونے تک تمام مشینریاں خرید لیں تاکہ مستقبل میں کسی قسم کے مسئلے کا سامنا نہ کرنا پڑے اور ان تمام چھوٹی بڑی کمپنیوں کو ملاکر”کارنیگی اسٹیل کمپنی“ کی بنیاد رکھی جس کی بدولت وہ کچھ عرصے میں دنیا کا مال دار ترین انسان بن گیا۔کارنیگی وہ شخص تھا جس نے امریکا کو معاشی طاقت بنانے میں اہم کرداراداکیا۔وہ منفرد انسان تھا جس نے اپنی ذات سے وعدہ کیا تھا کہ جب میری عمر 35سال ہوجائے گی تومیں ریٹائرہوں گالیکن یہ وعدہ وفا نہ کرسکا،البتہ 1901ء میں اس نے اپنا کاروبار480ملین ڈالر میں فروخت کردیااوراپنی باقی زندگی اور90فی صد دولت(تقریباًچھ ہزارکروڑ ڈالرز)قوم کی فلاح کے لیے وقف کردی۔
اس نے جان لیا تھا کہ آنے والاوقت علم وتحقیق کا ہے اور جو قوم اس میدان میں ماہر ہوگی، وہی فاتح عالم بنے گی۔چنانچہ اس نے ملک میں 2900لائبریریاں اورتحقیقی مراکز قائم کیے اورقوم کی تقدیربدل کر رکھ دی۔آج اگر امریکہ معاشی طاقت ہے اور ستاروں پر کمندیں ڈا ل رہا ہے تو اس میں بڑ احصہ اینڈریوکارنیگی کی بصیرت اور دوراندیشی کا ہے۔
آپ اگر ساحل پرکھڑے ہوں اور سمندرکی طرف دیکھیں تو پانی آپ کولہرو ں کی صورت میں نظر آئے گا۔یہ لہریں بنتی ہیں، اْچھلتی ہیں، ڈوبتی ہیں اور دوبارہ نمودار ہوتی ہیں۔سمجھیں کہ زندگی سمندر ہے۔ آج آپ زندگی کے کسی کنارے پر کھڑے کوئی عمل کرتے ہیں تو ممکن ہے کہ اس کا نتیجہ ایک دن بعدیا ہفتہ، مہینہ، سال،دس سال بعد مل جائے۔جس طرح سمندر میں لہریں اْچھلتی اور ڈوبتی ہیں اسی طرح زندگی میں بھی ہماری محنت کے نتائج کبھی ظاہرہوتے اور کبھی غائب رہتے ہیں۔
اب یہاں دوصورتیں ہیں۔جس انسان کی سوچ بلند ہوگی تووہ اس بات پر افسردہ نہیں ہوگا کہ مجھے محنت کا نتیجہ ملنے میں دیر کیوں لگ رہی ہے اور جس کی سوچ چھوٹی ہوگی وہ اس بات کو بڑا غم بناکرمحنت کرنا چھوڑدے گااور عین ممکن ہے کہ ناشکرا بھی بن جائے۔خدانے ہمیں دیکھنے کے لیے آنکھیں عطا کی ہیں لیکن ہماری یہ صلاحیت محدود ہے۔البتہ جسے بصیرت ملی ہو تو وہ اْس مقام تک دیکھ سکتاہے جہاں تک عام فرد نہیں دیکھ سکتا۔دوراندیش اور صاحب بصیرت انسان کی نظر صدیوں پرمحیط ہوتی ہے اور وہ مستقبل بعید کا اندازہ لگاکر اس کے لیے محنت شروع کردیتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات عظیم شخصیات کو لوگ سمجھ ہی نہیں پاتے۔بصیرت والا انسان محنت کا فوری نتیجہ نہ ملنے پرپریشان نہیں ہوتا۔وہ اپنی دوراندیشی کی بنیاد پر دیکھ لیتا ہے کہ آج کا عمل میرے مستقبل کوسنواررہا ہے جب کہ بصیرت سے محروم انسان صبر سے محروم ہوتاہے۔کیو ں کہ صبر سے جوفوائد ملتے ہیں وہ جلد بازی سے نہیں ملتے۔
اینڈریو کارنیگی جب بڑھاپے کوپہنچاتو اس نے اپنے تجربات اور کامیابیوں سے نئی نسل کو مستفیدکرنے کافیصلہ کیا۔اس نے اعلان کیاکہ مجھے لکھاری کی ضرورت ہے۔اگلے دن بہت سے لوگ انٹرویو دینے کے لیے آئے لیکن اسے کوئی بھی پسندنہیں آیا۔آخر میں ایک جوان آیا۔اینڈریو نے اس کی آنکھوں کی چمک سے اندازہ لگایا کہ اس میں کام کرنے کا جذبہ موجود ہے۔اس نے جوان سے کہا کہ میں تمہیں اپنے لیٹر ہیڈ پر خط لکھ کردیتاہوں جس کی بنیاد پر تم دنیا کی 700 کامیاب ترین اور مال دارترین شخصیات کاانٹرویو کرسکوگے۔یہ سب میرے دوست ہیں لیکن میری ایک شرط ہے۔ جوان نے سوالیہ نظروں سے اینڈریوکارنیگی کی طرف دیکھاتو وہ بولا:شرط یہ ہے کہ تمہیں اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔یہ جوان نپولین ہل تھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھربولا:مجھے منظورہے۔
اس نے کئی سال تک اس پراجیکٹ پر کام کیااور آخرکار Think and grow richکے نام سے کتاب لکھی۔اس کتاب میں دنیا کی کامیاب ترین شخصیات کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جن کی بدولت یہ لوگ کامیاب ہوئے تھے۔یہ کتاب 1937ء میں منظرعام پر آئی اور بے انتہا مقبول ہوئی۔اسے The Bible of Successکہا جانے لگا۔یہ کتاب کامیابی کے فلسفے پر سند کی حیثیت رکھتی ہے اور 85سال گزرنے کے باوجود آج تک شائع ہورہی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نپولین ہل نے صبر اور دوراندیشی سے کام لیا۔وہ اگر اینڈریوکارنیگی کی شرط ماننے سے انکارکردیتاتو آج یہ شا ندار کتاب وجود میں نہ آتی۔
ہم اگر اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تولوگوں کی اکثریت ایسی ہے جو زندگی بھر ایک ہی جگہ رہتی ہے اور ترقی نہیں کرپاتی۔اس کی کیاوجہ ہے؟اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس وژن نہیں ہے۔ہمیں یہ نہیں معلوم کہ 20سال بعد ہم کہاں ہوں گے۔ہم انفرادی اور اجتماعی طورپر بڑی سوچ سے محروم ہیں اور اسی وجہ سے زوال پذیر ہیں۔حالانکہ وژن میں اتنی طاقت ہے کہ یہ انسان کی زندگی بدل سکتاہے۔بعض زندگی بھر ناکام رہتے ہیں، جب کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مختصر عرصے میں شاندار ترقی حاصل کرلیتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس وژن ہوتاہے،جو انھیں راستہ دکھاتا اورانھیں منزل تک پہنچاتاہے۔کسی بزرگ سے پوچھا گیاکہ عقل مند کون ہے؟ تو جواب ملا عقل مند وہ ہے جو اپنے ا ٓج میں منصوبہ بندی کرتے ہوئے مستقبل کو بہتر کرے۔آپ نے پہاڑ چڑھنے والوں کو دیکھاہوگا، وہ خود کو ایسی رسی سے باندھ کر رکھتے ہیں جس کاایک سرا کسی مضبوط کیل سے بندھا ہوتاہے۔اس رسی کا فائدہ یہ ہے کہ اگرچڑھنے والاپہاڑ سے پھسل بھی جائے تو گرِنے سے محفوظ رہتاہے۔وژن بھی یہی کام کرتاہے۔یہ انسان کو Track(سمت)پررکھتاہے اور اگر وہ Detrackہوجائے تواسے واپس راستے پر لاتاہے۔ایسے شخص کی نظر ہروقت اپنی منزل پرہوتی ہے اور اپنے راستے میں آنے والی تمام مشکلات اور رکاوٹو ں کو پار کرتاہے۔یہ محنت، کوشش اور مستقل مزاجی ایک دن اسے منزل تک پہنچادیتی ہے۔
آپ کا وژن کیا ہے؟ آپ کے خواب کیا ہیں؟کیا آپ کا بھی کوئی وژن ہے؟کیا آپ اپنا مقصد پانے کیلئے محنت کر رہے ہیں؟ فیصلہ خود کیجئے اوراپنے اندر چْھپی ہوئی دوراندیشی کی طاقت کو جان لیں۔نیزایسی حکمت ِعملی اپنائیں جو آپ کو آپکی منزل تک پہنچا دے۔