دورِ حاضرہ میں نوجوانوں کا کردار
بابائے قوم قائد اعظم نے نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے اپنی قوم کے باہمت نوجوانوں سے بہت سی اْمیدیں ہیں کیونکہ آگے چل کر انہوں نے ہی قوم کے ستون بننا ہے۔ انہوں نے ایک اور موقع پر فرمایا آج کا نوجوان کل کا قائد ہے۔ہم اپنے گرِدوپیش نگاہ ڈالیں تو پاکستان کی کل آبادی میں سے 75 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جب کسی بھی چیز کی زیادتی تین گنا ہو تو لازمی امر ہے کہ زیادہ تر انحصار اْسی پر کیا جائے۔ چونکہ ہمارے ملک کی آبادی تین گنا نوجوانوں پر مشتمل ہے اس لیے ہمارے رہنماؤں کی آنکھیں روشن مستقبل کیلئے نوجوانوں پر آ کر ٹھہر گئی ہیں۔
پاکستانی نوجوان مضبوط اِرادوں کا مالک، عزتوں کا رکھوالا، دشمن کے مقابل ان کی صفوں میں لڑنے والا ہے۔ وہ باشعور ہیں،حالات کے سامنے سینہ سپر ہو جانے والے، شیر دل جوان ہیں۔ ان کے اِرادوں میں پہاڑوں کی سی بلندی،جذبوں میں طوفانی تلاطم اور قوتِ ارادی میں چٹانوں جیسا مضبوطی پائی جاتی ہے۔نوجوانوں میں بے پناہ صلاحیت پنہاں ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اْن کو بیدار کیا جائے اور صحیح استعمال کیا جائے۔ جوانی میں خون جوشیلہ ہوتا ہے اس وقت کام کرنے کی لگن، ہمت اور قوت ہوتی ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے ساتھ یہ عالم یہ رہا کہ ان کی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ کبھی تو سیاسی رہنما سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں اپنے مقصد سے دور لے جاتے ہیں۔ کبھی مذہبی رہنما مذہب کی آڑ میں نوجوانوں کو استعمال کرتے ہیں اور کبھی قومی رہنما اپنے حریف کو نیچا دکھانے کے لئے نوجوانوں کی جذبوں کا خون کر دیتے ہیں۔
شاید اسی لیے شاعر نے لکھا:بدل دے جو رْخ ِطوفان کوئی ایسا نہیں ملتا
فرعون تو ملتے ہیں کوئی موسی نہیں ملتا
لیکن کبھی کسی نے انھیں قومی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا۔ہمارے ملک میں ایسا صرف ایک دفعہ ہوا اور وہ قائد اعظم نے کیا اور اس کے بعد آج تک یہی ہوتا آرہا ہے کہ ذاتی مفاد کو قومی و ملکی مفاد پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے ان کو ہوا دینے والے نوجوان ہی تھے۔ ارسطو، سقراط،بقراط کولمبس بوڑھے نہیں تھے۔خدا نے ہر انسان کے اندر صلاحیت رکھی ہے اور ہر شخص کو کوئی نہ کوئی نعمت بھی ضرور عطا کی ہے۔ جیسے کہ مقدس پولوس رسول کہتے ہیں نعمتیں تو طرح طرح کی ہیں اور یہی حال نوجوانوں کا ہے۔ ہر نوجوان کے اندر صلاحیتیں ہیں لیکن جو نوجوان اس قابل ہیں انہیں خود بھی اپنی صلاحیتوں کا،اپنے اندر چھپے ہوئے جواہر کا علم نہیں ہے۔
آج کا نوجوان زیادہ تر منشیات کا عادی ہے۔ نوجوانوں کی پہاڑ جیسی جوانی کو یہی نشہ دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ وہ جونوان جو منشیات کے عادی ہیں نہ جانے ان کو اپنی جوانی پر ترس کیوں نہیں آتا؟یہ اپنی جوانی کے سنہری دور کو ضائع کیوں کر رہے ہیں؟سب سے بڑی یہ نشے کی لعنت ہی ہے جس نے نوجوانوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے۔جس طرح رات کے بعد صبح ہوتی ہے، اندھیرے کی کوکھ سے اْجالا جنم لیتا ہے، خزاں کے بعد بہار آتی ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کے منفی پہلو کو مثبت پہلو میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی نوجوانوں میں چند ایسے نوجوان بھی ہیں جو بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر قوم کی عزت کے امین بنے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی اگر انہیں مزید رہنمائی مل جائے تو وہ نیا آسمان اور نئی زمین تخلیق کر سکتے ہیں۔قوم کیلئے قابل فخر کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ قوم کو روشن مستقبل کی جانب گامزن کر سکتے ہیں۔مجموعی طور پر جوانوں کا جائزہ لینے کے بعد مسیحی نوجوانوں کا کردار بھی دیکھ سکتے ہیں۔ نوجوانوں کو جو سب سے بڑا عطیہ خدا کی طرف سے ملا ہے وہ جوانی ہے جس کی حقارت خداکو بھی پسند نہیں۔
مقدس پولوس رسول نے غیر یہودیوں میں تبلیغی کام کا بیڑا اْٹھایا تو اسے پار لگا کر ہی دم لیا اور موت کا خوف بھی ان کے اس کام میں آڑے نہ آ سکا۔مقدس یوحنا اصطباغی کا سر قلم کر دیا گیا لیکن پھر بھی وہ اپنے مشن پر ڈٹا رہا۔مقدس پطرس رسول نے بے وفا کہلوانا پسند نہ کیا اور اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کے لیے یسوع کے پیچھے الٹی صلیب کی اذیت برداشت کی۔اور سب سے عظیم قربانی ہمارے خداوند یسوع مسیح نے دی۔ جس کے ہم پیروکار ہیں اس نے اپنی جوانی کے عالم میں حق کی آواز بلند کی اور اس آواز کو دبانے کے لیے کی کوششیں کی گئیں، سازشیں کی گئیں لیکن وہ ہر طرح کے حالات کے باوجود اپنے مشن میں ثابت قدم رہے۔لیکن اگر آج دیکھا جائے تو آج کا نوجوان راہِ راست سے بھٹک چکا ہے۔معاشی طور پر آج کا مسیحی نوجوان مستحکم نہیں۔ بے روزگاری کا طوفان کی طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے حالات کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتا ہے۔
معاشی طور پر مستحکم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ تعلیمی پسماندگی ہے۔ نوجوانوں میں تعلیمی شعور ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے نہ صرف تعلیمی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ معاشی طور پر بھی حالات خراب ہو جاتے ہیں۔ اور یہی حالات ان میں احساس کمتری پیدا کردیتے ہیں اور انہیں معاشرے میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں ہمارے نوجوانوں نے بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ ہمارے لئے ایسی مثالیں چھوڑ گئے ہیں کہ آج بھی ہم ان کا نام لیتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی گفتار میں ان کے کارنامے فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں۔
ماضی پر نگاہ ڈالیں تو ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے آتے ہیں کہ بڑوں نے ارادہ کیا تو نوجوانوں نے ارادے کو عملی جامہ پہنایا۔ بڑے منزل کی طرف بڑھے تو نوجوانوں نے منزل پر پہنچ کر دم لیا۔ بڑوں نے اشارہ کیا تو نوجوانوں نے اشارے کو منزل کا نشان سمجھ لیا۔آزادی کا خیال علامہ اقبال اور قائد اعظم نے دیا تو تمام نوجوانوں نے بلا تفریق مسلمان اور مسیحی آزاد وطن حاصل کر کے دم لیا۔کیا ہم اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے نشان منزل تک نہیں پہنچ سکتے؟ ہم اپنے اندر شعور پیدا کیوں نہیں کر سکتے؟
لہذا اب موقع ہے کہ نوجوان کلیسیا میں مثبت کردار ادا کریں تعلیم حاصل کریں اور کامیاب بنیں۔
نیپولین نے کہا کہ کوئی قوم اتنی دیر تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کے نوجوان ارادوں کے مضبوط نہ ہوں اور شعوری طور پر بیدار نہ ہوں۔نوجوانوں کا عالمی دن مناتے ہوئے تمام نوجوانوں کو چاہئے کہ تعلیمی لحاظ سے ترقی کریں گے۔ اپنی تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی سوچ کے زاویے کو بدلیں۔ دوسروں کو بھی پیار، محبت اور رواداری کا درس دیں اور خود بھی اس پر عمل کریں۔اگر آج ہمیں دورِ حاضرہ میں فخر کے ساتھ سر بلند ہو نا ہے تو نوجوان عزم کریں کہ ان تمام مسائل کا حل تلاش کریں گے جن سے آج کل مسیحی دوچار ہیں۔