خوابوں کا دفاع

ایک اْستاد کہتے ہیں:کہ میرا تبادلہ ایک پرائمری اسکول میں ہوا۔ پرنسپل نے مجھے تیسری جماعت پڑھانے کے لیے دی۔ انہوں نے کہا: میں تم سے صاف صاف بات کرتا ہوں۔ ہمارے اسکول میں تیسری جماعت کے تین سیکشن ہیں۔ اس تعلیمی سال ہم نے باقی اْساتذہ کے ساتھ مل کر فیصلہ کیا ہے کہ اْن میں سے دو سیکشنزمیں بہترین طالب علم ہوں گے اور جو تیسری کلاس تمہیں ملی ہے اْس کے تمام طالب علم ناکام اور نااْمید ہیں۔ اگر تم ان میں سے تین یا چار کو بھی بہتر بنا سکے تو تمہیں پورا احترام ملے گااور اگر نہ بنا سکے تو کوئی الزام نہیں، کیونکہ اْن کے والدین بھی اْن کی تعلیمی قابلیت کے بارے میں جانتے ہیں۔
اس گفتگو کے بعد اْستاد صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور ہر طالب علم سے پوچھا: تم بڑے ہوکر کیا بنوگے؟کچھ نے کہا: فوجی افسر، کچھ نے کہا: ڈاکٹراور کسی نے کہا: انجینئر۔یہ سن کر اْستادکا دل باغ باغ ہوگیا اور اْس نے کہا: خدایا تیرا شکر ہو! ان کے خواب اب تک مرے نہیں ہیں۔
اگلے ہی دن انہوں نے بچوں کی نشستیں اْن کے خوابوں کے مطابق بدل دیں یعنی افسر ایک ساتھ بیٹھیں، ڈاکٹر ایک ساتھ، انجینئر ایک ساتھ نیز اْن کی کتابوں پر بھی اْن کے خواب کا لقب لکھ دیا:افسر عمران،ڈاکٹر امجد اورانجینئر خالد!پھر انہوں نے اپنی تدریس کا آغاز کیا اور اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لی کہ یہ سب بچے دوسرے بچوں کی طرح قابل ہیں، کمزور نہیں ہیں۔
یقیناً ان میں سے کوئی غلطی کرتا، کوئی سستی کرتا اور کوئی ہوم ورک نہیں کرتا تھاتویہاں سزا دینے کی باری آئی۔لیکن اْستاد صاحب کی سزا مختلف تھی۔ وہ انھیں مارتے نہیں تھے بلکہ صرف اْن کا لقب چھین لیتے۔ پھر انہیں ایک خاص جگہ بٹھا دیتے جس کو ”گلی“کا نام دیا تھا۔ اور یہ سزا بچوں کو بہت تکلیف دیتی پھر وہ اپنی پوری کوشش کرتے کہ دوبارہ اپنی کرسی اور اپنا پسندیدہ لقب واپس حاصل کریں۔اس طریقے سے اْن کا معیار بلند ہوتا چلا گیا۔ وہ روزانہ ہوم ورک کرتے، دل لگا کر پڑھتے۔اْستاد صاحب کبھی کبھار اْن بچوں کوتحفے بھی اْن کے خواب کے شعبے سے متعلق دیتے۔
پہلے سمسٹر کے آخر میں پوری کلاس کو پڑھائی، اسکول اور اْستاد سے محبت ہوگئی۔ اب شاذ و نادر ہی کسی بچے کو ”گلی“ میں بیٹھانا پڑتا۔سال کے آخر میں،اس کلاس نے باقی دونوں کلاسوں کو بڑے فرق سے پیچھے چھوڑ دیااور اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوئے۔
پرنسپل اور دوسرے اْساتذہ نے اْس کلاس کے ٹیچر سے پوچھا:خدا را ہمیں بتاؤ کہ تم نے کون سا تدریسی طریقہ اپنایا جس نے ان بچوں کواتنا بدل دیا اور ان کا معیار حیران کن حد تک بلند کردیا؟تو اْستاد محترم کا جواب یہ تھا:میرا تدریسی طریقہ اور انداز تمہارے جیسا ہی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ میں نے ہر طالب علم کو اپنے خواب کا دفاع کرنے پر لگا دیا۔
یہ کہانی سیکھاتی ہے کہ یقینا اگر اْستاد بچے کے ذہن میں یہ بیٹھا دے کہ وہ جو چا ہے وہ بن سکتا ہے تو ہر بچہ کامیاب ہو سکتا ہے۔کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اْستا د بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ بنا دیتا ہے۔آج عالمی یوم ِ اْساتذہ ہم سبھی کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے اْستادوں کا احترام کریں،انھیں خراجِ تحسین پیش کریں کیونکہ ہماری کامیابی انہی کی بدولت ہے۔

Daily Program

Livesteam thumbnail