بڑھیاکی نصیحت
ایک بوڑھی اماں اپنے ٹوٹے پھوٹے چھوٹے مکان میں زندگی بسر کررہی تھی۔ اس نے بلی پال رکھی تھی دونوں کو ایک دوسرے سے بے حداْنس تھا۔ایک مرتبہ کوچے میں بچوں نے بلی کوڈرایااور ایک مرتبہ کتوں نے بھی اس کا تعاقب کیا۔ یہی وجہ تھی کہ بلی نے گھر سے باہر کبھی قدم بھی نہ رکھا۔اس بلی نے تازہ کھانوں کی خوشبو صرف ہمسایوں کے گھر سے آتی ہوئی محسوس کی تھی کیونکہ اس گھر میں اس کی خوراک صرف خشک روٹی تھی یا کبھی کبھاراس کی مالکن اس کے لیے خشک روٹی شوربے میں بھگو دیتی تھی۔بلی کو ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ وہ اس انتظار میں رہے کہ کسی بل سے چوہے کی آواز سنے، کچھ دیر گھات لگا کر بیٹھ جائے تاکہ چوہے کو پکڑلے، ان خیالات سے وہ خوش ہوتی اور کہتی مجھے تو انہیں کھانا بھی گوارا نہیں ہے۔ لیکن مجبوری ہے صرف یہ چاہتی ہوں کہ کچھ دیران سے کھیلتی رہوں انہیں پکڑ کر چھوڑدوں اور آنکھیں بند کر لے لیٹ جاؤں اور جونہی وہ بھاگے تو اس کا تعاقب کروں اور دوبارہ پکڑ کر کھالوں۔
وقت اسی طرح گزرتا رہا کہ ایک دن بلی خوراک کی تلاش میں بڑی مشکل سے دیوار سے ہوتے ہوئے چھت پر جا پہنچی۔ اس نے چاروں طرف سونگھنا شروع کردیا کہ دیکھے کہ کھانے کی خوشبوکہاں سے آرہی ہے۔وہ جونہی چند قدم آگے بڑھی تو اس نے دیکھا کہ ہمسائے کے گھر کی دیوار پر ایک بہت بڑا جانور بیٹھا ہے جس کی بڑی بڑی مونچھیں کانوں کو چھورہی تھیں اس کے کان اور پاؤں بھی بڑے بڑے تھے۔یہ جانور آہستہ آہستہ بلی کی جانب بڑھنے لگا جسے دیکھ کر بلی خوفزدہ ہوئی اس نے چاہا کہ بھاگ جائے لیکن بھاگنے کی ہمت نہ کرسکی۔
جب اس نے غور سے دیکھا تو یہ جانور بلی ہی تھی اس لیے اپنی جگہ پر کھڑی رہی یہاں تک کہ بڑی بلی اس کے قریب پہنچ گئی۔بوڑھیاکی بلی کو دوسری بلی کی جسامت اور قدوقامت بے حد پسند آئی، اس لیے کہنے لگی واہ واہ! میں بے حد خوش ہوں، کیا ممکن ہے کہ مجھے بھی بتاؤ تمہیں ایسی توانائی کس طرح حاصل ہوئی ہے۔ بڑی بلی نے جواب دیا:میں نے جب تمہیں دیکھا تو تمہارے لاغرپن سے یہ خیال کیا کہ شاید تم مکڑی ہو۔ لیکن اب دیکھ رہی ہوں کہ تم واقعی ایک بلی ہو۔ چلو تم پوچھ رہی ہو کہ میں اتنی موٹی تازی کیوں ہوں،تو بتا ہی دیتی ہوں میری بہن! اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی سے لطف اْٹھاتی ہوں۔خوب کھاتی اور خوب سوتی ہوں۔اپنا وقت خوشی سے گزارتی ہوں، یہی وجہ ہے کہ چاق وچوبندہوں۔دْبلی بلی نے پوچھا، کیا کھاتی ہو اور اپنی خوراک کہاں سے حاصل کرتی ہو؟
بڑی بلی نے جواب دیا: میں بادشاہ کے دسترخوان سے ریزے چنتی ہوں۔ ہرروز شاہی باورچی خانہ میں حاضری دیتی ہوں۔ وہاں روغنی روٹی، بھنا ہْوامرغ اور بکرے کے کباب کھاتی ہوں اور اگلے دن تک سیرِ رہتی ہوں۔ باقی وقت بھی کھیل کود اور تفریح میں گزارتی ہوں یا آرام کرلیتی ہوں۔ شاید تجھے نہیں معلوم کہ سب لوگ خوراک ہی سے چست و طاقتور بنتے ہیں۔ صرف ہوا میں سانس لینے سے طاقتور نہیں بنتے! اگر تیری زندگی بھی میری طرح ہوتی تو آج میری طرح طاقتور ہوتی۔
دْبلی بلی نے کہا، تو سچ کہہ رہی ہے لیکن بْھنا ہوا مرغ! میں نے تواپنی زندگی میں اْس کانام بھی نہیں سنا اور بکرے کے کباب کا رنگ بھی نہیں دیکھا۔کیا تمہیں معلوم ہے کہ میری خوراک کیا ہے؟ تھوڑی سی سوکھی روٹی اور کبھی کبھار بڑھیاکا بچا ہوا شوربا، ہاں! شاذونادر چوہے کا گوشت بھی ہاتھ آجاتا ہے۔بڑی بلی ہنسی اور کہا، یہی وجہ ہے کہ تم اس طرح لاغرہواور مرنے کے قریب پہنچ گئی ہو لیکن اس میں تمہاری اپنی غلطی ہے، آخر چوہا بھی کوئی کھانے کی چیز ہے؟ چوہا تو صرف بلی کے لیے کھلونا ہوتا ہے۔بہتر ہوگا کہ میرے مشورے کے مطابق اپنے لیے کچھ سوچو کیونکہ عمر بہت چھوٹی ہے اس لیے جہاں تک ہوسکے خوشی سے زندگی گزار و اور جو چیز جہاں سے ملے کھالو۔
دْبلی بلی نے درخواست کی اور کہا، اے دوست! میری رہنمائی کرو تاکہ میں بھی شاہی باورچی خانے سے اپنا پیٹ بھروں اور میں ہمیشہ تمہارے لئے دْعا گور ہوں گی۔بڑی بلی کا دل بھر آیا اور طے ہوا کہ اب جس وقت شاہی باورچی خانے میں جائے گی تو اسے اطلاع دے گی۔ اس کے بعد دونوں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر چلی گئیں۔بڑھیاکی بلی اس وعدے سے بے حد خوش تھی۔ اس لیے چھت سے اْتری اور سارا واقعہ گفت وشنید بوڑھی اماں کو سنایا۔ بڑھیا نے اسے نصیحت کی اور کہا تو نے جو باتیں کہی ہیں یہ تو ایک آوارہ بلی کی کہانی ہے جو نہ توچوہے پکڑتی ہے اور نہ ہی گھر کے مالک کی خدمت کرتی ہے۔ وہ صرف پیٹ بھرنے اور باورچی خانہ میں چوری کرنے کی عادی ہے ایسے کاموں کا نتیجہ ہمیشہ برْا ہوتا ہے۔
میری بات غور سے سنواور اسی زندگی پر صبر وشکر کرو۔یہ جان لو کہ جہاں بھنے ہوئے گوشت ہوتے ہیں وہاں جان کا خطرہ بھی ہے۔ ہم یہاں آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ہماری دنیا میں کسی قسم کا غم اور تکلیف نہیں ہے۔
دْبلی بلی نے کہا، یہ تمام باتیں درست ہیں لیکن اب میں روٹی اور شوربے پر قناعت نہیں کرسکتی،میرا دل بکرے کے کبابوں اور بھنے ہوئے گوشت کھانے کے لیے مچلتا ہے لیکن اس گھر میں یہ میسر نہیں ہے۔اب جبکہ ایک دوست میرے لیے یہ چیزیں مہیا کرنے کے لیے تیار ہے تو میں نہیں سمجھتی کہ تیری اجازت لوں۔
بڑھیانے کہا، میری پیاری! یہ باتیں توناتجربہ کار لوگوں کے لیے ہیں اور جو چاہتا ہے کہ تجھے بھنے ہوئے مرغ تک پہنچا دے وہ تمہارا دوست نہیں ہے بلکہ دھوکہ بازاور آوارہ ہے۔ اس کی زندگی کا دارومدار چوری پر ہے۔ ورنہ بھنا ہوا گوشت اور بکرے کے کباب بلیوں کے لیے نہیں پکائے جاتے اور جو لوگ انہیں تیار کرتے ہیں وہ کسی کو مفت نہیں دیتے۔
اگر کوئی تمہارا خیر خواہ دوست ہے تو وہ میری ذات ہے۔ میں نے تجھے پال کر جوان کیا ہے اور اپنے دامن میں تیری پرورش کی ہے۔اگرتم پھر بھی میری بات نہیں سننا چاہتی تو تمہاری اپنی مرضی۔ بڑھیاکی باتیں اس کے کانوں میں نہ اْتریں۔ اس لیے اگلے دن آوارہ بلی کے پیچھے پیچھے شاہی باورچی خانے میں پہنچ گئی۔اتفاقاً جب وہاں پہنچی تو کچھ دیر پہلے ایک ظالم بلی نے گوشت کا ایک ٹکڑا باورچی خانے سے چرایا تھا اور بھاگ گئی تھی اس لیے شاہی خدمت گار بلیوں کے ہاتھوں نہایت غصہ میں تھے۔چونکہ دْبلی بلی اس واقعہ سے لاعلم تھی اس لیے جونہی گرم غذا کی خوشبو اس کے دماغ میں پہنچی تو ہر طرح کی احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر گوشت کی طرف لپک پڑی جو باورچی خانے میں سیخ پر لٹکا تھا۔ ابھی اس کاہاتھ گوشت تک نہ پہنچا تھا کہ باورچی نے اس پر حملہ کردیا اور کباب کی سیخ تیر کی طرح اس کے پاؤں پر جالگی جس سے اس کا پاؤں بری طرح زخمی ہوگیا۔
بیچاری بلی لنگڑاتے ہوئے بڑی مشکل سے گھر پہنچ گئی۔بڑھیا سے معافی مانگی اور اپنے دل میں عہد کیا کہ اب آوارہ بلی کی باتیں نہیں سنے گی نہ ہی مفت خوراک کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالے گی اور بڑھیا کی نصیحت پر ہمیشہ عمل کرے گی۔