بچوں کا مستقبل۔۔۔والدین اور اْساتذہ ذمہ دار
کہا جاتا ہے کہ بچے کا پہلا سکول اْس کا گھر ہوتا ہے۔اور بچوں کو ذہنی طور پر تندرست، بہادر اور خوشحال بنانے میں بھی والدین کا ہاتھ ہوتا ہے۔لیکن بہت بار بچے کو ذہنی طور پر کمزور کرنے میں بھی ماں باپ اور اْساتذہ دونوں ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جوشو ایک چھوٹا معصوم بچہ تھا۔ لیکن امی ابو کی بے جا مار اور ڈانٹ ڈپٹ نے اسے تھوڑا باغی بنا دیا تھا۔ وہ پڑھائی میں بھی بے حد اچھا اور لائق تھا۔جب والدین کی مناسب توجہ نہ رہی تو وہ بگڑنے لگا، ایک دن یوں ہوا کہ اپنے کمرے سے اْٹھ کر وہ کچن میں پانی پینے آیا۔ غلطی سے ایک گلاس اس کے ہاتھ سے پھسلا اور فرش پر جا گرِا۔چھوٹی بہن ماہم ویڈیو گیم کھیل رہی تھی۔ پانی پینے کی غرض سے وہ بھی کچن کی طرف آ رہی تھی۔ گلاس ٹوٹنے کی آواز پر اس کے ننھے قدم وہیں جم گئے۔ وہ سب دیکھ چکی تھی۔
امی ابو اورمریم اتنی اونچی آواز آنے پر دوڑے چلے آئے تو پوچھنے پر جوشو بوکھلا کر بولا: بلی دودھ پینے آئی تھی اس کی ٹانگ لگنے سے گلاس شیلف سے نیچے گرِگیا۔اکثرایسا ہوتا بھی تھااس لئے جوشو کی بات کا اعتبار کر لیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود امی ابو نے اسے خوب ڈانٹا۔جوشو کو شدید غصہ تھا کہ ذرا سی بات پر اسے امی ابو نے اتنا زیادہ کیوں ڈانٹا۔ماں باپ کے غلط رویے کے بدولت جوشو کے اندر منفی جذبات اور انتقام نے سر اْٹھایا۔ ایک دن وہ چھپتا چھپاتا ابو کے کمرے میں آیا ان کی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال اور پانچ سو کا کڑکڑاتا ہوا نوٹ نکال لیا۔ جسے دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوا۔ جلدی سے اس نے نوٹ کی دو تہیں لگائیں۔ اپنی جیب میں ڈالا اورباہر نکل آیا۔ پھروہ بازارچلا گیا کچھ پتنگیں خریدیں۔ مزے مزے کی چیزیں کھائیں۔ دوستوں کو بھی خوب مزا کرایا اور خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔
شام کو ابو چلانے لگے: میری پینٹ کی جیب سے پیسے کس نے نکالے ہیں؟
جوشو سمیت تینوں بچوں نے انکار کردیا تب بھی ابو نے جوشو کو ہی پکڑا اور چپل لے کر خوب مرمت کی۔وہ بہت رویا اور چلایا۔ اس واقعہ کے بعد ابو کے لئے نفرت کے جذبات جوشو کے دل میں جڑ پکڑ چکے تھے۔ دو روز بعد وہ سکول آیا اور سیکنڈ پیریڈ میں کلاس سے غائب ہوگیا۔ ماہانہ ٹیسٹ ہو رہے تھے پر اس کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی۔ کلاس کی چھوڑ کر وہ سکول کے باغ میں چھپا بیٹھا تھا۔ اْس کاننھا دل پکڑے جانے کے خوف سے کانپ رہا تھا۔
وہ سوچنے لگا: نہ تو گھر میں امی ابو کے ساتھ مزہ آتا ہے، نہ ہی اب سکول میں کوئی ٹیچر اچھی ہیں۔
یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔ کسی کو کیا معلوم تھا کہ دو دن پہلے اس بچے پر کیا قیامت گزری ہے اور کیوں اس نے ٹیسٹ کی تیاری نہیں کی؟پیریڈ ختم ہونے والا تھا باغ کے روٹ پر قدموں کی چاپ سنائی دی۔
جوشو چونک گیا، گردن گھما کر دیکھا تو اس کا کلاس مانیٹرعادل تھا۔ اسے دیکھتے ہی جوشو کے اوسان خطا ہو گئے۔
عادل نے آتے ہی دہشت ناک شکل بناتے ہوئے کہا:
کلاس میں چلو! ٹیچر تمہیں بتاتی ہیں۔ انہوں نے مجھے تمہیں ڈھونڈنے کے لئے بھیجا ہے۔ وہ کہہ رہی تھیں جوشو نے ٹیسٹ نہیں دیا اسے جرمانہ دینا پڑے گا اور سزا بھی ملے گی۔ وہ بے حد گھبرا گیا خوف سے اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا۔ خیر جب وہ کلاس میں داخل ہوا تو کلاس انچارج نے اسے ڈانٹا۔ سب بچوں کے سامنے ذلت کا یہ سماں جوشوسے برداشت نہ ہو سکا۔ موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
عجیب بات تھی کہ میڈم نے جوشو سے پوچھنے کی بھی کوشش نہ کی کہ آخر اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کیوں وہ کلاس چھوڑ کر باہر گیا؟گم صم روتا ہوا بچہ کلاس کے ایک کونے میں الگ تھلگ سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ بچوں کی تمسخر آمیز باتیں اسے اندر سے چیر رہی تھیں۔ بلند ہوتے قہقہے اس کا ضبط ہلا رہے تھے۔ گھر کے اندر اور باہر بے حسی دیکھ دیکھ کرجوشوبہت بیزار ہو گیا تھا۔ اب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کلاس میں اکیلا بیٹھا کرے گا اور کسی بھی بچے کو اپنے ساتھ نہیں بیٹھنے دے گا۔ سکول کی خوفناک فضا اور بچوں کے ہجوم میں بھی جوشو اپنے آپ کو تنہا محسوس کرنے لگا۔
مہینے کے اختتام پر جوشو کا رزلٹ بھی آنا تھا اور پیرنٹس میٹنگ بھی تھی۔ جوشو کی امی اْس کے ساتھ سکول چلی آئیں۔ جوشونے جب رپورٹ کارڈ اپنے ہاتھوں میں لیا تو دیکھا وہ چار مضامین میں فیل ہوگیا ہے۔ شرمندگی کے احساس سے اس کے تپتے ہوئے گال سرخ ہونے لگے اور وہ امی کے پیچھے چھپ کر رونے لگا۔ امی اسکی حالت دیکھ کر شدید پریشان ہوئیں۔ واپسی پر وہ بے حد ناراض تھیں۔ مگر ماں کا دل رحم سے تڑپ اْٹھا۔ وہ سوچنے پر مجبور ہوگئیں کہ آخر میرے بچے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ پہلی کلاس سے اول آتا تھا اور اب فیل ہونے لگ گیا ہے۔
جوشو کی بڑی بہن بارہویں کی طالبہ اور ایک نہایت ذہین لڑکی تھی۔ دلاسہ دیتے ہوئے اس نے امی کو بتایا امی جان بچوں کے مسائل کے لئے ایجوکیشنل سائیکالوجسٹ بھی سکول میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم کیوں نہ جوشو کے متعلق ان سے رجوع کریں؟ امی کو مشورہ بے حد پسند آیا۔
کیونکہ آخر وہ ماں تھیں اور انہیں اپنے بچوں کی خوشحالی، صحتمندی،ذہنی توازن اور مستقبل ہر قیمت پر عزیز تھا۔
ماہر نفسیات کے ڈاکٹر نے جوشو سے بات کرنے کے بعد امی کو سمجھاتے ہوئے کہا:
چھوٹے بچے نہایت معصوم اور حساس ہوتے ہیں۔ بُرا سلوک ان کے معصوم اور کورے ذہنوں کو خراب کرتا ہے۔اس لیے ایسے رویوں سے جہاں تک ممکن ہوبچنا چاہئے اور نرمی اور شفقت سے بچوں کی اچھی تربیت کرنی چاہیے۔ یوں بچوں کے بگڑنے کا امکان بھی کم رہ جاتا ہے۔ماہر نفسیات کی مدد سے حقیقت جان لینے کے بعد امی بہت رنجیدہ اور پشیمان ہوئیں اور یہ سوچنے کے قابل ہوئیں کہ وہ خود اور جوشو کے والد ننھی کلیوں کو کھِلنے سے پہلے ہی جلا رہے تھے۔ نیا اور تکلیف دہ انکشاف ہونے پر امی نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کر لیا۔ مارنا پیٹنا تودور کی بات امی نے تو ڈانٹنا تک چھوڑ دیا۔ اور اپنے بچوں پر خصوصی توجہ دینا شروع کر دی۔
ایک سیشن کے دور ان جوشو ڈاکٹر سے مخاطب ہوا اور بولا:
ڈاکٹر آنٹی میں آپ کے کہنے پر اچھا بچہ بنوں گا اور وعدہ کرتا ہوں آپ کو سب بتاؤں گا پہلے آپ بھی وعدہ کریں آپ بابا کی مار سے مجھے بچائیں گی؟
علی کا درد ناک لہجہ اور آنکھوں میں خوف دیکھ کر ڈاکٹر صاحبہ نے وعدہ کیا اور یقین دلاتے ہوئے کہاٹھیک ہے بیٹا آپ ڈرو نہیں ہم سب آپ کی مدد اور تعاون کے لیے یہاں موجود ہیں۔ ہم ضرور آپ کے بابا کو سمجھائیں گے۔ بس اب آپ بھی کبھی بھی شرارت نہیں کروگے۔ اور ہمیشہ کے لئے اچھے بچے بن جاوَ گے۔پھر جوشو کی امی کو روک کر سمجھایا کہ ماحول کی مکمل تبدیلی اور سکون کے لئے جوشوکے ابو کو بھی مشاورت کے لئے آمادہ کریں۔
شروع میں توروایتی رعب کے زیراثر ابو نہ مانے، پھرامی کے بہت سمجھانے پر مان گئے۔ پہلے دو ماہ پھر چار اور چھ ماہ کے لگاتار سیشن کے بعد جوشو کے ابو بھی ماہر نفسیات کی رہنمائی سے معاملات اور مسائل کی نوعیت سمجھنے کے قابل ہوگئے۔ اپنے رویے کے متعلق ابو بھی سنجیدگی سے غور کرنے لگے تھے۔ اپنے متعلق سچ جان کر انہیں بھی بے حد افسوس ہوا۔
جوشو کے ابو بھی آہستہ آہستہ خود کو بدل رہے تھے۔ وہ اب بچوں کو سکول لانے اور لے جانے لگے۔ امی کے ساتھ مل کر بچوں کی پڑھائی اور دیگر سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ دفتر کے بعد اب وہ اپنا زیادہ وقت بچوں کے ساتھ گزارتے۔ رفتہ رفتہ ابو کا خوف بچوں کے اندر سے جانے لگا۔ ایک نئے پراعتماد اور دوستانہ ماحول میں بچے کھل کر سانس لینے لگے تھے۔
امی اور ابو کی بھرپور توجہ اور محنت کایہ نتیجہ نکلا کہ اس سال جوشو چوتھی جماعت میں سیکنڈ آیا،اس کی دونوں بہنوں نے بھی اچھی پوزیشن حاصل کی اور یوں اْس گھر میں خوشیوں اور مسرتوں کے قہقہے پھر سے لگنے لگے۔
پیارے بچو! اگر آپ کو بھی کوئی مسئلہ ہو تو اپنے والدین سے،بڑے بہن بھائیوں یا اْساتذہ سے بات کی جا سکتی ہے۔ ٹیسٹ کی تیاری میں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو مناسب انداز میں ٹیچرکوبتایا جا سکتا ہے۔ تاکہ وہ آپ کی مدد کر سکیں اور آپ کے گھر والوں سے بات کر کے آپ کے لیے آسانی پید ا کر سکیں۔اور اسی طرح والدین کو بھی اپنے رویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔تاکہ اْن کے بچے خود کو ماں باپ کے ساتھ محفوظ محسوس کریں اور ہر طرح کی بات دل کھول کر انہیں بتا سکیں تاکہ ہر گھر خوشیوں کا گہوارہ بنے۔