انٹرنیٹ نیکیوں کا سلسلہ
انٹرنیٹ کا آغاز اور ارتقا یو ایس کے ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ DARPA میں ہوا۔ جو ایک ایڈوانس ریسرچ پروجیکٹ ایجنسی ہے۔ پہلی بار انٹرنیٹ کنکشن سوئٹزرلینڈ میں اکتوبر 1965 میں ہوا۔پہلی ورلڈ وائڈ ویب سائٹ 1979 میں مسٹر ٹم برنر لی نے بنائی۔ آج انٹرنیٹ نے زندگی کی بنیادی ضرورت جیسی جگہ لے لی ہے جو ہمیں تمام ایسی خدمات بمعہ معاوضہ اور بلا معاوضہ فراہم کرتی ہے جس کا انسان متلاشی ہے۔ انٹرنیٹ نے انسائیکلوپیڈیا کی جگہ لے لی ہے۔ انٹرنیٹ اپنے دائرے میں اس قدر وسیع ہے کہ وہ ہر طرح کی اچھی اور بری معلومات فراہم کرتا ہے۔
کمیونیکیشن کی پیدائش اور بنیاد انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔لیکن کمیونیکیشن میں جدت نیا پن اور ارتقا وقت کی تیزی کے ساتھ ہوا بلکہ یہ کہنا بالکل بھی بے جان نہ ہوگا کہ کمیونیکیشنز کی بھرپور جوانی کا وقت یا وقتِ عروج انٹرنیٹ کا وجود میں آنا ہے۔ جس طرح ٹیکنالوجی نے ترقی کی ہے اسی طرح کمیونیکیشن کے معنی بھی گہرائی کے مراحل سے گزرے ہیں اور اب اس نے انسان کی سب سے بڑی ضرورت، تعلق، رشتہ داری، دوستی اور وابستگی جیسی گہرائی اپنے اندر سمولی ہے۔
آن لائن کلچر نے مقامی کلچر کے ساتھ ایسا رشتہ اور تعلق بنا لیا کہ اب ان دونوں کے بندھن کو الگ کرنا ناممکن سا لگتا ہے۔ انٹرنیٹ کے آنے سے کمیونیکیشنز کی دنیا میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جنہوں نے انسانی زندگی کو مثبت اور منفی طور پر بے حد متاثر کیا ہے۔ یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو ہم انسانوں یا انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو بطور تحفہ دی گئی ہیں۔انٹرنیٹ کی موجودگی نے ایک ہی وقت میں ہمارا بہت سی جگہوں پر موجود ہونا ممکن بنا دیا ہے۔ گویا ہم بھی اپنی فطرت میں جدید دور کے سپرمین بن گئے ہیں یا پھر روحانی نقطہ نظر سے مقدسین اور خدا کے پہنچے ہوئے درویش جو ایک ہی وقت میں کئی مقامات پر موجود ہوتے ہیں اور باری باری یا ایک ہی بار میں رابطوں کی دنیا میں جا سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی بڑی اور مثبت تبدیلی یہ بھی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں بولنے کی آزادی اور پلیٹ فارم دے دیا ہے۔ کوئی بھی انسان اپنی بات، اپنا خیال، اپنی فکر، اپنا ارادہ اور اپنا رد ِعمل بلا جھجک کسی بھی ذریعے سے دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ ایک ایسی کڑی ہے جہاں کمیونیکیشن خود بخود جن لیتی ہے۔
آن لائن کلچر نے ہمیں سب سے پہلے مہذب ہونا سکھا دیا ہے۔جس شخص نے عملی طور پر کبھی کسی کو انگلش greetingsنہیں کی تھی۔آج وہ آسانی سے دوسروں کو بڑے اچھے الفاظ میں مخاطب کرتا ہے اور کمیونیکیشن کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہم نے بات کرنے کی ابتدا بخوبی سیکھ لی ہے۔آن لائن ہونے کی روایت نے ساتھ ساتھ اس خیال کو بھی جنم دیا ہے کہ اگر کوئی آن لائن نہیں ہوتا تو اْس انسان کوا دھورا سمجھا جاتا ہے۔انٹرنیٹ سے انفرادیت کو انتہائی زیادہ فروغ ملا ہے۔ انٹرنیٹ کے جدید ذرائع کی کشش اور دلچسپی انسان کو باہر کی پوری دنیا سے رابطے میں رکھتی ہے۔لیکن اپنے ساتھ بیٹھے انسان کے حالات سے ناواقف اور غافل کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر یہ رویہ خاندانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں، جبکہ انٹرنیٹ پر بناِ گھڑی دیکھے گھنٹوں گزار دیے جاتے ہیں۔ اکاؤنٹ سے لے کر ٹیکنالوجی کے آلات تک ایک خاندان میں بھی سب کچھ ذاتی ہو گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس چیز کو جس نظریے کی عینک سے دیکھیں وہ ویسا ہی دِکھے گی۔ہماری سوچ کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم انٹرنیٹ یا اس کے ذرائع کو مکمل طور پر غیر روحانی نظریے کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ ایک عام سوچ ہے کہ ان ذرائع کا روحانیت یا نیکی سے دْور دْور تک کوئی بھی تعلق نہیں۔ لیکن اصل میں یہ ہمارے دیکھنے اور سمجھنے کا انداز ہے۔ انٹرنیٹ تو نیکیوں کا وہ سلسلہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں، پر یہ اس صورت نیکیوں کا سلسلہ بنے گا جب آپ کسی کو سنتے ہیں تو یوں سنیں کہ آپ کسی کو سمجھتے، مدد کرتے اور مشورہ دیتے ہیں۔ تاکہ اْس کو تسلی مل جائے۔ کسی سے تعلقات رکھتے ہیں تو اپنے مقاصد کے لیے نہیں بلکہ اس تعلق کو مقدس بنانا سیکھیں۔ کسی ایک فرد کے لیے فیس بک صرف فیس بک ہے جہاں وہ اپنا چہرہ اور ذاتی سرگرمیاں دوسروں کو دکھا سکیں۔جبکہ کسی دوسرے فردکے لیے یہی فیس بک اپنی ذات تک محدود نہیں رہتی بلکہ فیتھ بْک بن جاتی ہے، جو ایمان اور اْس سے متعلق بتاتی، دکھاتی اور پروان چڑھاتی ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ فیس بک ایک شو کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اپنی اپنی جگہ ہم اپنا اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ میں فیس بْک پر کیا اپلوڈ کرتا یا کرتی ہوں؟کیا میری فیس بْک میری فیتھ بک بن سکتی ہے؟
انٹرنیٹ جدید ایجاد اور خداوند خدا کا تحفہ ہے۔یہ ہمیں بہت سی سہولتیں، تفریح اور تعلیم مہیا کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ یقینا بہت سی اچھائیوں اور کمزوریوں کو بھی اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے۔ اگر اس نعمت کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ اگر نہ کیا جائے تو بھی ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔ فیصلہ ہمارا خود کا ہے، اگرانٹر نیٹ کو اچھائی، مثبت اقدام،مسیحت اور مسیحی اقتدار پھیلانے کے لیے استعمال کریں گے تو ہماری نیکی ایک منٹ میں کروڑوں لوگوں تک پہنچے گی اور انھیں بھی نیکی، بھلائی اور اچھا بننے کی طرف راغب کرے گی۔لیکن اگر ہم اس سے بدی کا اشتہار اپنی ذاتی بڑائی یا دکھاوے کے لیے استعمال کرتے ہیں تو برائی کی رفتار بھی تیز ترین ہوگی۔اس لیے ہمارا مسیحی ہونا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ انٹرنیٹ کے تمام ذرائع کو کس طرح بپتسمہ دیا جا سکتا ہے۔ کیسے مسیحی کیا جا سکتا ہے یا پھر کس طرح ان تمام ذرائع کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاکہ ان کے ذریعے انجیل کی قدریں عام ہوں اور انسانی زندگی بہتر بن جائے۔
تو آئیں انٹرنیٹ کے عالمی دن پر اپنے آپ سے وعدہ کریں کہ ہم ایسے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بنیں گے جو زندگی کی قدر کریں اور نیکی کرنے کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اپنی زندگی سے ایک اچھے مسیحی ہونے کا ثبوت دیتے رہیں اور بھلائی کو پھیلاتے رہیں۔