آخرخوش نصیب کون؟
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی جنگل کے ایک درخت پر ایک عقلمند کوا رہتا تھا۔کوا بہت خوش حال زندگی گزار رہا تھا۔بغیر کسی فکر کے وہ پورا دن گھومتا پھرتا اور طرح طرح کے کھانے پینے کا لطف اْٹھاتا۔شام ہوتے ہی کسی پھل دار درخت پر رات بسرکرتا۔زندگی کے حسین دن اسی طرح گزرتے رہے۔ایک دن کوا جنگل گھومنے نکلا۔گھومتے گھومتے اسے ایک جھیل نظر آئی۔یہ جھیل جنگل کے بیچوں بیچ تھی،جہاں کئی پرندے بسیرا کرتے تھے۔کوا پانی پینے کے لئے جھیل کے پاس اُترا تو اْس کی ملاقات ایک ہنس سے ہوئی۔جلد ہی ہنس اور کوا دوست بن گئے،لیکن کوا ہنس سے ملاقات کے بعد کچھ پریشان رہنے لگا۔اس کی پریشانی یہ تھی کہ ہنس اتنا سفید اور میں اتنا کالا کیوں؟کوا جھیل میں تیرتے ہنس کو دیکھ کر یہ سوچتا کہ ہنس پانی میں اتنی آسانی سے مزے سے تیر سکتا ہے اور جو کچھ بھی وہ کھاتا ہے وہیں جھیل میں دستیاب ہے۔یہ ہنس دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔مجھے بھی ہنس جیسا بننا چاہیے۔یہ سوچ کر کوے نے جھیل میں تیرنے کی کوشش کی لیکن وہ ڈوبنے لگا اور بڑی مشکل سے جھیل سے باہر آیا۔
کوے نے اپنے خیالات ہنس کو بتائے۔ہنس نے ہنستے ہوئے کہا پہلے مجھے بھی لگتا تھا کہ میں سب سے زیادہ خوش نصیب ہوں لیکن اْس وقت تک میں نے طوطا نہیں دیکھا تھا۔تمہیں پتہ ہے کہ طوطے کے پاس مختلف رنگوں کے پَر ہوتے ہیں۔طوطا تو انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے اور اچھے اچھے پھل کھاتا ہے۔یہ سن کر کوا سوچنے لگا کہ طوطا سب سے زیادہ خوش نصیب پرندہ ہو گا۔پھر کوا طوطے کے پاس گیا،اور اس سے انسانی آوازیں سیکھانے کو کہا۔کوے نے بھی یہی آوازیں نکالنے کی کوشش کی لیکن صرف کائیں کائیں کی آوازیں نکلی۔کوا افسردہ ہو گیا اور طوطے سے کہا،مجھے لگتا ہے کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو۔طوطے نے کوے کو بتایا،پہلے یہ سوچ کر میں بھی بہت خوش ہوتا تھا،پھر میں نے ایک مور دیکھا۔ میرے پاس تو صرف دو تین رنگ ہیں جبکہ مور کے پاس کئی رنگ ہیں۔مور خوبصورت رقص کر سکتا ہے۔اس کی بہت بلند آواز ہے،اپنی آواز سے مور جنگل میں موجود دیگر مخلوقات کو کسی بھی خطرے سے خبردار کرتا ہے۔میرے خیال میں مور دنیا کا سب سے خوش نصیب پرندہ ہے۔اب کوا مور سے ملنے جا پہنچا۔وہاں کوے نے دیکھا کہ مور گھبرایا ہوا ہے اور خود کو جھاڑیوں کے پیچھے چھپانے کی کوشش کر رہا ہے،کوا مور کے قریب گیا اور پوچھا:پیارے مور!تم بہت خوبصورت ہو،تمہاری پَروں میں کتنے سارے رنگ ہیں،تمہاری دلکشی،خوبصورتی اور رقص کی تعریف تو پورا جنگل کرتا ہے۔تم یوں جھاڑیوں میں کہاں چھپے بیٹھے ہو۔مور نے جواب دیا:اوہ پیارے کوے،میرے انہی پَروں نے مجھے پریشانی میں ڈال دیا۔ میرے لمبے اور رنگین پنکھ کی وجہ سے،شکاری مجھے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں،بعض اوقات وہ مجھے چڑیا گھر میں ڈال دیتے تھے۔اس وجہ سے میں یہ سوچتا رہتا ہوں کہ اگر میں چڑیا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ گھوم سکتا تھا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا ہے تو آسانی سے چھپ سکتا تھا۔
کوے نے کہا:میرا تو یہ خیال تھا کہ تم دنیا کے سب سے خوش نصیب پرندے ہو گے۔مور نے کہامیں بھی سوچتا تھا میں سب سے خوبصورت اور خوش نصیب پرندہ ہوں لیکن اپنی خوبصورت کی وجہ سے میں چھپتا پھرتا ہوں۔اس کے بعد مور نے کہا کہ میں نے کافی غور کیا اور مجھے اندازہ ہوا کہ صرف تم ہی وہ واحد پرندے ہو جسے کوئی شکاری نہیں پکڑتا جو کسی پنجرے میں قید نہیں ہوتا۔میرے خیال میں کوا ہی سب سے خوش نصیب پرندہ ہے اور میں تو یہ سوچتا رہتا ہوں کہ کاش میں کوا ہوتا تو خوشی خوشی ہر جگہ آزادی سے گھومتا اور اگر کوئی خطرہ ہوتا تو آسانی سے چھپ جاتا۔ایک عقل مند بوڑھا اُلو ایک درخت پر بیٹھا اْن دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔اْس نے کوے اور مور کو اپنے پاس بلایا اور کہاہم میں سے ہر ایک میں کچھ نہ کچھ خصوصیات ہیں۔ہنس پانی میں تیر سکتا ہے۔طوطا انسانی آواز کی نقل کر سکتا ہے۔
مور رقص کر سکتا ہے۔ چڑیا چھوٹی اور پھرتیلی ہوتی ہے۔اب میری طرف دیکھومیں تیراکی یا رقص نہیں کر سکتا لیکن مجھے اندھیرے میں بہت اچھی طرح سے دکھائی دیتا ہے۔میں اپنی گردن کو پیچھے کی طرف موڑ سکتا ہوں اور اپنے پیچھے چیزیں دیکھ سکتا ہوں۔کیا یہ بہت اچھا نہیں ہے!جب دن کے وقت دوسرے تمام پرندے سخت محنت کر رہے ہوتے ہیں تو،میں اپنے گھونسلے میں سکون سے سو رہا ہوتا ہوں۔
کوا مایوس ہوا کیونکہ اسے تو اپنی کسی خصوصیات کے بارے میں نہیں پتہ تھا۔اس نے اُلو کی بات کاٹی اور کہامجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں سبھی پرندوں میں سب سے زیادہ ناخوش ہوں۔اُلو مسکرایا اور جواب دیا:فراست اور سمجھ بوجھ میں کوے کو دوسرے پرندوں میں برتری ہے،اُلو نے کوے سے پوچھا:کیا تم نے پیاسے کوے کی کہانی نہیں سنی؟کوا بہت ذہین اور عقل مند بھی ہوتا ہے۔اس کی یادداشت بہت تیز ہے اور وہ سوچ سمجھ کر قدم اْٹھاتا ہے۔اسی لئے کسی بھی شکاری کا اسے پکڑنا اور نشانہ بنانا بہت مشکل ہوتا ہے۔اُلو نے کوے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ قدرت نے ہم میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ صلاحیتیں دی ہیں۔ہم میں سے ہر ایک کسی ایک چیز میں بہترین ہے۔ہمیں خود پر ترس کھانے کی بجائے محنت کرنی چاہئے اور جو کام ہم کرتے ہیں اس میں مہارت حاصل کرنی چاہئے۔
دوستو!اگر بغور جائزہ لیں تو ہم میں سے کچھ انسان بھی ایسے ہی زندگی گزار دیتے ہیں۔اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں سے کرتے کرتے ناشکری کرنے لگتے ہیں۔خدا نے جو دیا ہے اْس سے لطف حاصل نہیں کر تے۔اپنے پاس سو روپے ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے ہزار پر نظر رکھنے کی وجہ سے بے چین زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔خدا نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے لیکن انسان پھر بھی ناشکرا ہے۔اپنے سے زیادہ والے سے موازنہ احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے۔اس لئے اگر موازنہ کرنا ہی ہو تو اپنے سے کمتر سے کیجیے اور پھر خدا کا شکر کیجیے جس نے ہمیں بہت سی برکتوں سے مالا مال کیا ہے۔